رواں برس پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں کمی متوقع
8 جون 2017نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ برس تین لاکھ ستر ہزار افغان مہاجرین پاکستان سے اپنے وطن لوٹے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر انیس سو اسّی کی دہائی میں پاکستان پہنچنے والے افغان مہاجرین کی دوسری یا تیسری نسل کے افراد تھے۔ مبصرین کی رائے میں اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی واپسی کی ایک وجہ پاکستان کا یہ الزام تھا کہ افغان مہاجرین پاکستان میں جرائم پیشہ عناصر اور عسکریت پسندوں کو تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم افغانستان کی جانب سے وطن واپس پہنچنے والوں کو مناسب سہولیات کے فراہم نہ کیے جانے اور پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف جذبات میں کسی حد تک کمی کے باعث توقع ہے کہ اس سال مقابلتاﹰ کم تعداد میں افغان مہاجرین اپنے وطن لوٹیں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان ڈین میک نورٹن کا کہنا ہے، ’’گزشتہ برس کی نسبت پاکستان میں حالات اب مختلف ہیں۔ گزشتہ برس افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے پیچھے شدید نوعیت کے عوامل کار فرما تھے۔‘‘
اس سال فروری میں اسلام آباد حکومت نے افغان مہاجرین کے حوالے سے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس پالیسی میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو رجسٹر کرنا، مہاجرین کے حوالے سے ایک نئے قانون کو منظور کرنا اور افغان شہریوں کے لیے ویزے کے حوالے سے نیا قانون بنانا بھی شامل تھا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ان اقدامات کی وجہ سے افغان مہاجرین اب پاکستان میں رہنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ ایسے افغانستان میں واپس نہیں جانا چاہتے، جہاں کابل حکومت اور شدت پسند تنظیم داعش اور افغان طالبان کے درمیان جنگ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی کابل میں ایک ٹرک حملے میں 150 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال افغانستان واپس لوٹنے والے مہاجرین کو دی جانی والی فی کس رقم بھی 200 ڈالر کر دی گئی ہے۔ گزشتہ برس یہ رقم 400 ڈالر تھی جو وطن لوٹنے والوں کے لیے ایک بڑی سہولت تھی۔ سن 2002 سے 4.2 ملین افغان مہاجرین اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے تعاون سے واپس افغانستان جا چکے ہیں۔