رواں صدی کے آخر تک عالمی آبادی میں ڈیڑھ ارب کی کمی متوقع
1 ستمبر 2020
افزائش نسل میں کمی کے رجحان کی وجہ سے رواں صدی کے آخر تک عالمی آبادی میں ڈیڑھ ارب تک کی کمی ہو سکتی ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق چار عشروں میں زمین پر انسانی آبادی انتہا کو پہنچ جائے گی، جس کے بعد کمی شروع ہو جائے گی۔
اشتہار
سائنسی ماہرین کے مطابق زمین پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ انسانی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ نہیں بلکہ انسانوں کو دستیاب وسائل کا بہت تیز رفتار اور بے دردی سے استعمال ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ آج انسانوں کی فی کس اوسط عمر بہت بڑھ گئی ہے، زمین پر انسانی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب کافی زیادہ ہو چکا ہے اور فی کس اوسط شرح افزائش بھی کم ہو رہی ہے۔
آبادی سے متعلقہ امورکے کئی ماہرین کے مطابق رواں صدی کے آخر یعنی سن 2100ء تک دنیا کے ہر ملک کی آبادی کم ہونا شروع ہو چکی ہو گی۔ یہ بات ان ماہرین نے سائنسی جریدے 'لینسَیٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک نئی بین الاقوامی تحقیق کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھی ہے۔
زمین پر انسانی آبادی کی انتہا آج سے چار عشرے بعد
یہ ریسرچ صحت سے متعلق اعداد و شمار اور ان کے تجزیے کے ادارے IHME نے مکمل کروائی۔ اس تحقیق سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق اگلی صرف چار دہائیوں میں (یعنی 2060ء تک) زمین پر انسانوں کی مجموعی آبادی 9.7 بلین ہو جائے گی۔
اس کے بعد دنیا کی آبادی میں کمی کا ایسا سلسلہ شروع ہو گا، جس کے نتیجے میں 2100ء تک یہ آبادی کم ہو کر 8.8 بلین رہ جائے گی۔
لیکن مستقبل کا یہ عالمی رجحان اگر اب تک کی توقعات سے زیادہ تیز رہا، تو یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ صدی کے آخر تک زمین پر انسانی آبادی میں مجموعی طور پر 1.5 بلین کی کمی دیکھنے میں آئے۔
جاپان اور اسپین کی آبادی نصف رہ جائے گی
اس تحقیق کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آئندہ 80 برسوں میں مشرق بعید میں جاپان اور یورپ میں اسپین جیسے ممالک کی آبادی کم ہو کر آدھی رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک چین کی آبادی میں بھی واضح طور پر کمی ہو گی۔
سن 2030 میں پاکستانی شہروں کی متوقع آبادی
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2047 میں پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں آباد انسانوں کی تعداد برابر ہو جائے گی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے بارہ برس بعد پاکستانی شہروں کی آبادی کتنی ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1- کراچی
کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سن 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
2- لاہور
پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ایک کروڑ سترہ لاکھ نفوس کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک لاہور کی آبادی قریب دو کروڑ ہو جائے گی۔ پچاس کی دہائی میں لاہور کے شہریوں کی تعداد آٹھ لاکھ چھتیس ہزار تھی اور وہ تب بھی پاکستان کا دوسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
3- فیصل آباد
فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور بارہ برس بعد بھی آبادی کے اعتبار سے یہ اسی نمبر پر رہے گا۔ تاہم فیصل آباد کی موجودہ آبادی 3.3 ملین ہے جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 تک قریب پانچ ملین ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
4- پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی موجودہ آبادی بھی دو ملین سے کچھ زائد ہے اور اس وقت یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر بھی ہے۔ تاہم سن 2030 میں اس شہر کی آبادی قریب تینتیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گی اور یہ ملک کا چوتھا بڑا شہر بن جائے گا۔
تصویر: DW/F. Khan
5- گوجرانوالہ
سن 1950 میں گوجرانوالہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا نواں سب سے بڑا شہر تھا تاہم اب یہاں دو ملین سے زائد لوگ بستے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بارہ برس بعد اس شہر کی آبادی بتیس لاکھ چونسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی اور یہ ملک کا پانچواں بڑا شہر ہو گا۔
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images
6- راولپینڈی
اکیس لاکھ چھپن ہزار کی آبادی کے ساتھ راولپنڈی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ بارہ برس بعد راولپنڈی کی آبادی تین ملین سے زائد ہو جائے گی لیکن تب یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر ہو گا۔ 1950ء میں راولپنڈی کی آبادی دو لاکھ تینتیس ہزار تھی اور تب آبادی کے اعتبار سے یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/PPI
7- ملتان
ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی موجودہ آبادی قریب دو ملین ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں ملتان کی آبادی قریب انتیس لاکھ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
8- حیدر آباد
صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد سترہ لاکھ بیاسی ہزار نفوس کے ساتھ اس برس ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک اس شہر کی آبادی چھبیس لاکھ تیس ہزار ہو جائے گی اور وہ تب بھی ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہی ہو گا۔
تصویر: Imago/Zumapress
9- اسلام آباد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی موجودہ آبادی ایک ملین سے زائد ہے تاہم اگلے بارہ برسوں میں سولہ لاکھ بہتر ہزار نفوس کے ساتھ یہ شہر ملک کا نواں بڑا شہر بن جائے گا۔ رواں صدی کے آغاز میں اسلام آباد کے شہریوں کی تعداد پانچ لاکھ انہتر ہزار تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Reza
10- کوئٹہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی رواں برس ہی ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بارہ برس بعد کوئٹہ کی آبادی سولہ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ جب کہ سن 1950 میں کوئٹہ کی آبادی 83 ہزار تھی۔
تصویر: shal.afghan
11- بہاولپور
پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور کی آبادی بھی اگلے چند برسوں میں ایک ملین سے زیادہ ہو جائے گی اور سن 2030 تک یہاں کی آبادی بارہ لاکھ چھیالیس ہزار نفوس تک پہنچ جائے گی۔ رواں برس کی آبادی سات لاکھ چھیانوے ہزار ہے جب کہ 1950 میں بہاولپور کی آبادی محض بیالیس ہزار تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12- سیالکوٹ
صوبہ پنجاب ہی کے شہر سیالکوٹ کی آبادی بھی اگلے بارہ برسوں میں ایک ملین سے زائد ہو جائے گی۔ اس برس تک سیالکوٹ چھ لاکھ چھہتر ہزار نفوس کے ساتھ ملک کا تیرہواں بڑا شہر ہے۔ 1950ء میں سیالکوٹ کی آبادی ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔
تصویر: Reuters
13- سرگودھا
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صوبہ پنجاب کی آبادی بھی سن 2030 میں ایک ملین سے کچھ کم (نو لاکھ نوے ہزار) تک پہنچ جائے گی۔ اس برس یعنی 2018ء میں سرگودھا کی آبادی چھ لاکھ 77 ہزار ہے اور یہ ملک کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ سن 1950 میں یہاں صرف چوہتر ہزار شہری مقیم تھے۔
تصویر: Reuters/Stringer
14- لاڑکانہ
صوبہ سندھ ہی کے شہر لاڑکانہ کی موجودہ آبادی پانچ لاکھ چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو اب سے بارہ برس بعد سات لاکھ بیاسی ہزار تک پہنچ جائے گی۔ 1950 میں لاڑکانہ کی آبادی محض تینتیس ہزار تھی۔
تصویر: AP
15- سکھر
سن 2030 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع شہر سکھر کی آبادی سات لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔ سن 1950 میں اس شہر کی آبادی محض چھہتر ہزار نفوس پر مشتمل تھی جب کہ رواں برس سکھر کی آبادی پانچ لاکھ چودہ ہزار ہے۔
تصویر: DW
15 تصاویر1 | 15
اس عمل کا تقریباﹰ یقینی طور پر نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور افریقہ میں نائجیریا کا شمار بھی دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں ہونے لگے گا۔
اگلے بیس برسوں میں مسلمان مائیں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ بچے مسیحی مائیں جنم دیتی ہیں۔ لیکن امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کے ایک تازہ ترین آبادیاتی جائزے کے مطابق آئندہ دو عشروں میں مسلمان خواتین سب سے زیادہ بچے پیدا کریں گی۔
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed
مسیحی مائیں دوسرے نمبر پر
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق مسیحی باشندوں کی آبادی میں کمی کی ایک وجہ یورپ کے بعض ممالک میں شرحِ اموات کا شرحِ پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی آبادی میں تبدیلی کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد مسیحی عقیدے کے حامل انسانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
مسلم اور مسیحی آبادیوں میں شرحِ پیدائش میں فرق
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں مذاہب کی آبادیوں میں شرح پیدائش کے لحاظ سے سن 2055 اور سن 2060 کے دوران 60 لاکھ تک کا فرق دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ سن 2060 تک مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد جبکہ مسیحی 32 فیصد ہوں گے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
سب سے بڑی مذہبی برادری
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ جائزہ اس کے سن 2015 میں شائع کیے گئے ایک تحقیقی جائزے ہی کی طرز پر ہے۔ سن 2015 میں اس مرکز نے کہا تھا کہ آنے والے عشروں میں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بڑی مذہبی برادری بن جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nagori
سب سے زیادہ بچے
سن 2010 سے سن 2015 کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بچے پیدا ہوئے، اُن میں سے 31 فیصد بچوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا تھا۔ دو سال قبل پیو سینٹر کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 تک مسلمانوں اور مسیحیوں تعداد تقریباﹰ برابر ہو جائے گی۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
دیگر مذاہب آبادی کی دوڑ میں پیچھے
ہندوؤں اور یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار انسانوں کی کُل تعداد میں سن 2060 تک اضافہ تو ہو گا تاہم یہ عالمی آبادی میں تیزی سے پھیلنے والے مذاہب کے افراد کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے کم ہو گا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
6 تصاویر1 | 6
سبھی معاشرے بدل جائیں گے
اس ریسرچ کے مطابق مستقبل میں صرف 12 ممالک ایسے ہوں گے، جہاں بچوں کی شرح پیدائش اتنی زیادہ ہو گی کہ ان کی مجموعی قومی آبادی میں کوئی واضح فرق نہیں پڑے گا۔ ان ممالک میں صومالیہ اور جنوبی سوڈان بھی شامل ہوں گے۔
ماہرین نے اس تحقیق کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 22 ویں صدی کے آغاز پر عالمی آبادی میں اتنی زیادہ اور دور رس تبدیلیاں آ چکی ہوں گی کہ تب تقریباﹰ سبھی معاشرے بدل چکے ہوں گے۔
بہت سے اہم سوال
لیکن اس پہلو سے جڑے کئی سوال ایسے بھی ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنا ابھی باقی ہیں۔ مثلاﹰ تب بہت عمر رسیدہ انسانوں کی طبی دیکھ بھال کے اخراجات کون اٹھائے گا؟ کیا تب ایسے بزرگ انسانوں کے آبائی ممالک کی حکومتیں ایسا کرنے کے قابل ہوں گی؟ کیا تب ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ریاستوں سے اپنے ہاں نوجوان تارکین وطن کی آمد کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اور کیا مستقبل میں بھی انسان بڑھاپے کی وجہ سے عملی زندگی سے ریٹائر ہوں گے یا یہ سب کچھ بھی بدل جائے گا؟
آئی ایچ ایم ای کے ماہرین کے مطابق عالمی آبادی میں کمی کا رجحان 2064ء میں شروع ہو گا، جو بتدریج تیز رفتار ہوتا ہوا 2100ء تک بہت زیادہ ہو جائے گا۔
اجیت نرنجن (م م / ا ا)
عمر رسیدہ شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اثرات
دنیا کی آبادی میں 2050ء تک 65 سال سے زائد عمر کے افراد کا تناسب 15.6تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح اقوام متحدہ کے مطابق یہ شرح اب تک کے مقابلے میں دگنی ہو جائے گی۔ اس اضافے کی وجہ کیا ہے اور یہ ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/GettyImages
بزرگ شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے
دنیا بھر میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ 2010ء میں دنیا کی آبادی میں 65 سال سے زائد افراد کی شرح 7.7 فیصد تھی جبکہ اقوام متحدہ کی پیشگوئی کے مطابق 2050ء میں یہ دگنے اضافے کے ساتھ 15.6فیصد ہو جائے گی۔ اس کی بڑی وجوہات میں اوسط عمر میں اضافہ اور کم شرح پیدائش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محبت میں گرفتار ’پینشنر‘
آج سے سو سال قبل بہت کم ہی لوگ زندگی کی 75 بہاریں دیکھ پاتے تھے۔ اس عمر کے لوگوں کو بوڑھا کہا جاتا تھا۔ آج کل اکثر پینشنر صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تیس برس پہلے کے مقابلے میں آج جرمنی میں سو سال سے زائد افراد کی تعداد پانچ گناہ زیادہ ہے۔
تصویر: Fotolia/Gina Sanders
طویل عرصے تک’ فٹ‘
عمر رسیدہ افراد کی بہتر جسمانی فٹنس کا تعلق دواؤں اور بہتر طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی خوشحالی سے بھی ہے۔ یہ صورتحال ترقی پذیر ممالک میں بھی نظر آ رہی ہے۔ بزرگ افراد کی بڑی تعداد ترقی پذیر ممالک میں ہی رہ رہی ہو گی۔
تصویر: Patrizia Tilly/Fotolia
خواتین کم بچے چاہتی ہیں
نوجوان جوڑے کم بچے چاہتے ہیں اور آئندہ برسوں میں بھی یہ رجحان اسی طرح سے جاری رہے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں خواتین معاشی اعتبار سے خود مختار ہونے کی خواہش رکھتی ہیں اور کیریئر کے ساتھ بچوں کی پرورش مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
تصویر: Fotolia/Fotowerk
لڑکیوں کی تعلیم کی جانب رغبت
ترقی پذیر ممالک کی اکثر خواتین چاہتی ہیں کہ ان کی بچیاں گھروں میں بہن بھائیوں کی خدمت کرنے کی بجائے تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ بہتر زندگی گزار سکیں اور آنے والی نسل کی اچھی تربیت کر سکیں۔
تصویر: DW/H. Hashemi
پینشن کا کمزور نظام
ترقی پذیر ممالک میں سماجی فلاحی سہولتوں اور پینشن کے نظام کا بھی فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ان ممالک میں بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے برسوں کے دوران وہاں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بھی زیادہ ہو گی۔ ان ممالک میں ایسے ڈھانچے تشکیل دیے جانے چاہییں، جن سے پینشن یافتہ طبقے کی زندگی آسان ہو سکے۔
تصویر: Issouf Sanogo/AFP/GettyImages
دیکھ بھال کافی نہیں
جرمنی جیسے خوشحال ملک میں بھی بوڑھے افراد کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال ہی کافی نہیں ہوتی۔ دیکھ بھال کے متعدد مراکز موجود ہیں اور وہ مہنگے بھی بہت ہیں۔ پینشن کی رقم میں مسلسل کمی کی وجہ سے بزرگ افراد میں غربت بھی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Fotolia/Kzenon
بزرگ شہریوں میں غربت
دنیا کے غریب خطوں میں زیادہ تر عمر رسیدہ خواتین غربت کی وجہ سے کشکول اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ افراد ہوتے ہیں، جنہوں نےکام کرنے کے دوران اپنے مستقبل کی فکر نہیں کی ہوتی اور آنے والے وقت کے لیے کچھ محفوظ نہیں کیا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/Lehtikuva/Hehkuva
عمر رسیدہ افراد کا احتجاج
آج کل دنیا بھر میں بزرگ افراد بہتر پینشن کے لیے مظاہرےکر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نکاراگوا میں اسی طرح کے ایک مظاہرے میں لوگوں نے کم از کم نوے امریکی ڈالر ماہانہ پینشن کا مطالبہ کیا۔
تصویر: REUTERS
ہر عمر کے افراد کے لیے روزگار
اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ ہر عمر کے افراد کو روزگار کے مناسب مواقع مہیا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کا مقصد پینشن کے حوالے سے موجودہ سوچ کو تبدیل کرنا ہے۔ آج بھی بڑی عمر کے افراد چھوٹے پیمانے پر اپنا کوئی کاروبار کرتے ہوئے گزارا کرتے ہیں۔