1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روبوٹ ٹیکسیاں، کارساز اداروں کا اہم ہدف

عاطف توقیر
20 نومبر 2017

دنیا بھر کے بڑے کارساز ادارے بغیر ڈرائیور والی کاروں پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ایسی روبوٹ گاڑیاں ہمارے سامنے ہوں گی۔ پھر نہ اتنے حادثات ہوں گے اور نہ ہی فضا میں ایسی آلودگی۔

Waymo selbstfahrende Autos
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Risberg

فرض کیجیے یہ 22 نومبر 2028 ہے۔ سارہ جو ایک نوجوان ماں ہیں، اپنے دو بچوں کو ایک بغیر ڈرائیور والی گاڑی میں سوار کرتی ہیں، ان کے سیٹ بیلٹس باندھتی ہیں اور ان کا ماتھا چومتی ہیں اور یہ گاڑی ان بچوں کو لے کر اسکول کے لیے روانہ ہو جاتی ہے۔ سارہ کے پاس گاڑی نہیں ہے اور اس کا کوئی گاڑی خریدنے کا منصوبہ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے تخمینہ لگایا تو جواب واضح تھا۔ اپنی گاڑی رکھنے سے کہیں سستا ہے کہ جب انہیں گاڑی درکار ہو، اسے منگوا لیں۔

برطانیہ میں بغیر ڈرائیور کے چلنے والی روبوٹ گاڑیوں کا آغاز

سعودی عرب نے ’ خاتون ‘ روبوٹ صوفیہ کو شہریت دے دی

’قاتل روبوٹ تباہ کن ہیں‘

روبو ٹیکسی زندگی آسان کر چکی ہے، مگر ان ٹیکسیوں کے بعد کارساز اداروں کے کاروباری ماڈلز بھی تبدیل ہو جائیں گے یعنی کئی دہائیوں تک گاڑیاں بیچ کر سرمایہ حاصل کرنے کا راستہ تبدیل ہو جائے گا۔

اس انقلابی قدم پر کام تیزی سے جاری ہے۔ ہر بڑا کارساز ادارہ بغیر ڈرائیو والی الیکٹرک گاڑیوں اور ٹرکوں کی تخلیق کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں ہے۔ یہ گاڑیاں کسی اسمارٹ فون پر فقط چند کلکس کی دوری پر ہوں گی۔

گزشتہ ماہ بیک آف امریکا میرِل لینچ نے پیش گوئی کی تھی کہ مکمل طور پر الیکٹرک گاڑیاں سن 2025 تک کاروں کی عالمی منڈی کے 12 فیصد تک پہنچ چکی ہوں گی، جب کہ سن 2030 تک یہ تعداد 34 فیصد اور 2050 میں یہ تعداد 90 فیصد کے قریب ہو گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا کے زیادہ تر بڑے شہروں کو درپیش اسموگ یا آلودہ دھند کے مسائل کی وجہ سے الیکٹرک گاڑیوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹریفک جیم مختلف بڑے شہروں کا مسئلہ بن چکا ہے اور بعض شہروں میں تو گاڑیوں کی ملکیت دینے کا سلسلہ بھی روکا جا چکا ہے۔

کارساز اداروں کے مدمقابل اب نئی کارساز کمپنیاں جن میں گوگل، ایپل اور ٹیسلا شامل ہیں، آن کھڑی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کی جانب سے مکمل طور پر سیمی آٹوميٹک ٹرک متعارف کروایا گیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق مارکیٹ اب کارساز اداروں کی انجینیئرنگ کی مہارت کی بجائے سوفٹ ویئر پر انحصار کی جانب بڑھ رہی ہے۔

یہ انسان نما روبوٹ الٹی چھلانگ بھی لگاتا ہے

00:51

This browser does not support the video element.

جرمنی میں بھی مرسیڈیز تیار کرنے والا کارساز ادارہ ڈائملر بوش کے ساتھ مل کر بغیر ڈرائیو والی الیکٹرک کاروں کی تیاری میں مصروف ہے، جو سن 2020 تک مارکیٹ میں آ جائيں گی۔ جب کہ یہ ادارے کار ٹو گو کے نام سے ایک کار شیئرنگ سروس بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو ابتدا میں دنیا بھر کے دو درجن شہروں میں شروع کی جائے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں