دنیا بھر کے بڑے کارساز ادارے بغیر ڈرائیور والی کاروں پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ایسی روبوٹ گاڑیاں ہمارے سامنے ہوں گی۔ پھر نہ اتنے حادثات ہوں گے اور نہ ہی فضا میں ایسی آلودگی۔
اشتہار
فرض کیجیے یہ 22 نومبر 2028 ہے۔ سارہ جو ایک نوجوان ماں ہیں، اپنے دو بچوں کو ایک بغیر ڈرائیور والی گاڑی میں سوار کرتی ہیں، ان کے سیٹ بیلٹس باندھتی ہیں اور ان کا ماتھا چومتی ہیں اور یہ گاڑی ان بچوں کو لے کر اسکول کے لیے روانہ ہو جاتی ہے۔ سارہ کے پاس گاڑی نہیں ہے اور اس کا کوئی گاڑی خریدنے کا منصوبہ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے تخمینہ لگایا تو جواب واضح تھا۔ اپنی گاڑی رکھنے سے کہیں سستا ہے کہ جب انہیں گاڑی درکار ہو، اسے منگوا لیں۔
روبو ٹیکسی زندگی آسان کر چکی ہے، مگر ان ٹیکسیوں کے بعد کارساز اداروں کے کاروباری ماڈلز بھی تبدیل ہو جائیں گے یعنی کئی دہائیوں تک گاڑیاں بیچ کر سرمایہ حاصل کرنے کا راستہ تبدیل ہو جائے گا۔
اس انقلابی قدم پر کام تیزی سے جاری ہے۔ ہر بڑا کارساز ادارہ بغیر ڈرائیو والی الیکٹرک گاڑیوں اور ٹرکوں کی تخلیق کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں ہے۔ یہ گاڑیاں کسی اسمارٹ فون پر فقط چند کلکس کی دوری پر ہوں گی۔
ہینوور صنعتی میلہ، جہاں روبوٹس راج کرتے ہیں
دنیا کے سب سے بڑے ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں ستّر ممالک سے تعلق رکھنے والی ساڑھے چھ ہزار کمپنیوں نے لاتعداد اسٹالز لگائے ہیں۔ چوبیس تا اٹھائیس اپریل تک جاری رہنے والی اس نمائش میں زیادہ توجہ روبوٹس کو ہی حاصل ہے۔
تصویر: Deutsche Messe AG
روبوٹس ہی روبوٹس
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں مختلف ہالز میں تا حد نظر روبوٹس ہی نظر آ رہے ہیں۔ کچھ بہت بڑے ہیں تو کچھ چھوٹے۔ لیکن ان میں ایک مشترکہ خصوصیت ضرور ہے، اور وہ یہ کہ یہ سب انسانوں کی مدد کے لیے کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/H. Böhme
میرا کھلونا، آپ کا کھلونا
تصویر میں نظر آنے والا یہ ’دوستانہ روبوٹ‘ لیگو کے ساتھ کھیلنے کا شوقین ہے۔ جرمن کمپنی Schunk مکمل روبوٹس نہیں بناتی بلکہ صرف ان کے ہاتھ تیار کرتی ہے۔ اس کمپنی کی جدید ٹیکنالوجی دنیا بھر میں مشہور ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
صنعتی آئی پیڈ
حالیہ عرصے میں ایپل کمپنی کی ترقی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اب روبوٹس آئی پیڈز کو کو آپریٹ کرنے میں بھی ماہر ہو گئے ہیں۔ ہینوور صنعتی میلے کے سربراہ ژوخن کؤکلر کے مطابق فیکٹریوں میں اب روبوٹس کو آئی پیڈز چلانے کے لیے استمعال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
خبردار! حفاطتی جوتے پہن لیں
آج کل فیکٹریوں میں بہت سے سائن بورڈز آویزاں ہوتے ہیں، جن پر مختلف قسم کی وارننگز اور ہدایات درج ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ تو ان معلومات پر نظر رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم مستقبل قریب میں ہمیں ایسی سمارٹ گھڑیاں میسر ہوں گی، جو ہمیں حفاظتی اقدامات سے باخبر کرتی رہیں گی۔ خاص مقام پر داخل ہوتے ہی فیکٹری ملازم کو اس سمارٹ واچ سے خودکار طریقے سے میسج ملے گا کہ جوتے پہن لیے جائیں۔
تصویر: Comau
تاریخ سے سبق
نت نئی ایجادات تو ہوتی ہی رہیں گی لیکن اس تجرباتی عمل میں ماضی کا مشاہدہ بھی اہم ہے۔ ٹھیک ستّر برس قبل ہینوور میں پہلے ’ایکسپورٹ فیئر‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس اکیس روزہ ایونٹ میں بتیس ملین ڈالر مالیت کے برابر ایکسپورٹ کانٹریکٹس پر مذاکرات کیے گئے تھے۔ اس مرتبہ اس تجارتی میلے کے ایڈیشن میں اسی مناسبت سے جرمن کار ساز ادارے فولکس ویگن نے اپنے مشہور زمانہ T1 وین کے جدید ماڈل کی نمائش بھی کی۔
تصویر: DW/H. Böhme
پارٹنر ملک پولینڈ کا حصہ
رواں برس کے ہینوور صںعتی تجارتی میلے کا سرکاری پارٹنر ملک پولینڈ ہے۔ یہ جدید الیکٹرک بس Ursus نامی فرم نے بنائی ہے، جو پولش جرمن پارٹنر شپ کا نتیجہ ہے۔ جرمنی کمپنی Ziehl-Abegg نے بھی اس ماحول دوست بس کو بنانے میں ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
یہ کلاؤڈ ہے
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں اس مرتبہ ای کامرس کے بڑے ادارے ایمازون کی نمائندگی بھی توجہ مرکز بن رہی ہے۔ کلاؤڈ سروسز یعنی ڈیٹا کو ریموٹ سرورز پر اسٹور کرنے پر بڑی سرمایا کاری کی جا رہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
مکمل ’انالوگ‘
اگرچہ ہینوور صنعتی تجارتی میلے پیداواری عمل کی ڈیجیٹلائزشن پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ہر چیز ڈیجیٹل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہ اوزار۔ کسی کمپیوٹر سرور کے خراب یا کسی روبوٹ کے زنگ آلود ہونے پر اس ’انالوگ‘ ہتھوڑے کا استعمال مکمل حل ہو سکتا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
’اِنٹیگریٹڈ انڈسٹری‘
اپنی نوعیت کی یہ سب سے بڑی سالانہ عالمی نمائش ہینوور میں اس سال مجموعی طور پر 70 ویں مرتبہ منعقد کی جا رہی ہے اور اس نمائش کا اہم ترین موضوع وہ ’اِنٹیگریٹڈ انڈسٹری‘ ہے، جس میں بین الاقوامی سطح پر روبوٹس اب زیادہ سے زیادہ اہم اور متنوع کردار کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Z. Abbany
ساڑھے چھ ہزار سے زائد صنعتی نمائش کنندہ اداروں کی شمولیت
اس مرتبہ اس عالمی تجارتی میلے میں مختلف براعظموں میں بیسیوں مختلف ممالک سے آنے والے کُل ساڑھے چھ ہزار سے زائد صنعتی نمائش کنندہ ادارے حصہ لے رہے ہیں اور مجموعی طور پر اس میلے کو دیکھنے کے لیے آنے والے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی تعداد قریب دو لاکھ تک رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: DW/Z. Abbany
میرکل نے افتتاح کیا
شمالی جرمنی کے شہر ہینوور میں دنیا کے سب بڑے صنعتی تجارتی میلے کا جرمن چانسلر اور پولینڈ کی وزیر اعظم نے مل کر کیا۔ اس سال اس پانچ روزہ عالمی تجارتی نمائش کا خصوصی پارٹنر ملک پولینڈ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
11 تصاویر1 | 11
گزشتہ ماہ بیک آف امریکا میرِل لینچ نے پیش گوئی کی تھی کہ مکمل طور پر الیکٹرک گاڑیاں سن 2025 تک کاروں کی عالمی منڈی کے 12 فیصد تک پہنچ چکی ہوں گی، جب کہ سن 2030 تک یہ تعداد 34 فیصد اور 2050 میں یہ تعداد 90 فیصد کے قریب ہو گی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا کے زیادہ تر بڑے شہروں کو درپیش اسموگ یا آلودہ دھند کے مسائل کی وجہ سے الیکٹرک گاڑیوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹریفک جیم مختلف بڑے شہروں کا مسئلہ بن چکا ہے اور بعض شہروں میں تو گاڑیوں کی ملکیت دینے کا سلسلہ بھی روکا جا چکا ہے۔
کارساز اداروں کے مدمقابل اب نئی کارساز کمپنیاں جن میں گوگل، ایپل اور ٹیسلا شامل ہیں، آن کھڑی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کی جانب سے مکمل طور پر سیمی آٹوميٹک ٹرک متعارف کروایا گیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق مارکیٹ اب کارساز اداروں کی انجینیئرنگ کی مہارت کی بجائے سوفٹ ویئر پر انحصار کی جانب بڑھ رہی ہے۔
یہ انسان نما روبوٹ الٹی چھلانگ بھی لگاتا ہے
00:51
جرمنی میں بھی مرسیڈیز تیار کرنے والا کارساز ادارہ ڈائملر بوش کے ساتھ مل کر بغیر ڈرائیو والی الیکٹرک کاروں کی تیاری میں مصروف ہے، جو سن 2020 تک مارکیٹ میں آ جائيں گی۔ جب کہ یہ ادارے کار ٹو گو کے نام سے ایک کار شیئرنگ سروس بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو ابتدا میں دنیا بھر کے دو درجن شہروں میں شروع کی جائے گی۔