فرحت اپنا سر ایک طرف کو جھکاتا ہے اور مسکراتا ہے۔ وہ ہاتھ کی گرمی اور چہرے کے تاثرات محسوس کرنے کی طاقت کا حامل ہے اور چاہتا ہے کہ ہم اس سے باتیں کریں۔
اشتہار
سہہ جہتی پروجیکٹر کے ذریعے یہ روبوٹ انسانی شکل بنانے کے علاوہ سری اور ایلکسا جیسے وائس اسٹنٹس کی طرح بات سنتا اور کرتا ہے۔ پوری توجہ اور انہماک سے بات سننا، انسانوں کے تاثرات اور ہاتھوں کی گرمی تک کو محسوس کرنا اور پھر اپنے تئیں جواب کی کوشش کرنا اس روبوٹ کو انوکھا بناتا ہے۔
اس روبوٹ کے تخلیق کار ثمر المبیعد کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹ انسان نہیں ہے، تاہم کچھ ایسی صورتوں میں جب انسان کو پوری سچائی سے گفت گو درکار ہو۔ فرحت روبوٹکس کے چیف ایگزیکٹیو ثمر المبیعد کے مطابق، ‘‘ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ بعض صورتوں میں انسان اپنے چند امور خصوصاﹰ صحت سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے دیگر انسانوں کے مقابلے میں روبوٹس سے زیادہ راحت اور آسانی محسوس کرتا ہے۔‘‘
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
انہوں نے بتایا کہ چوں کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ روبوٹس ان کی بات سننے کے بعد ان کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر لیں گے اور دوسری جانب روبوٹ اپنے آپ کو کسی انسان کی شخصیت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، ایسی صورت میں لوگوں کو ان مشینوں کے ساتھ گفت گو میں آسانی رہتی ہے۔
اس وقت روبوٹ فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں، جہاں یہ مختلف مسافروں سے مختلف زبانوں میں بات کرتے ہوئے انہیں معلومات فراہم کرتے ہیں، اس کے علاوہ کسٹمر سروسز کی تربیت تک دینے میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
اسٹاک ہولم میں فرخت روبوٹکس اور میرک کمپنیوں نے بدھ کے روز اپنے اس روبوٹ کو عوامی طور پر پیش کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ روبوٹ صحت اور لائف اسٹائل سے متعلق لوگوں سے درست معلومات لینے اور پھر اس معلومات کی بنا پر ان کا علاج کرنے میں معاون ثابت ہو گا، کیوں کہ بعض صورتوں میں لوگ اپنی بیماری یا لائف اسٹائل سے متعلق معلومات چھپا لیتے ہیں۔