روحانی کا دورہٴ یورپ، جوہری ڈیل کا تحفظ اور اسرائیلی موقف
5 جولائی 2018
ایران کے صدر حسن روحانی آج کل یورپی دورے کی پہلی منزل آسٹریا میں ہیں۔ آج جمعرات پانچ جولائی کو انہوں نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا بھی دورہ کیا۔
اشتہار
ایران کے صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے سربراہ کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا ہے کہ اُن کا ملک عالمی جوہری ایجنسی کے ساتھ تعاون کو مستقبل میں کم کر سکتا ہے۔
صدر روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی متنبہ کیا ہے کہ ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی لگانے کے انتہائی سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ایران پر نئی پابندیوں کا آغاز امریکا کی سن 2015 میں طے پانے والی جوہری ڈیل سے دستبرداری کے بعد سے ہوا ہے۔
صدر روحانی نے عالمی جوہری ایجنسی کے سربراہ یُوکی یا امانو کے ساتھ ملاقات میں اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اُن کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کا حامل ہے لیکن نئے تقاضوں کی روشنی میں بین الاقوامی جوہری ادارے کے ساتھ تعاون کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ روحانی نے واضح کیا کہ تعاون کی موجودہ سطح برقرار رکھنے کی مکمل ذمہ داری جوہری ایجنسی پر ہے کیونکہ اُسی کو نئے حالات میں کوئی حل تجویز کرنا ہے۔
دو روز قبل ایرانی صدر نے اشارہ دیا تھا کہ اگر امریکا نے ایرانی تیل کی فروخت پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی تو وہ ناکہ بندی کر کے آبنائے ہرمز کے راستے ہونے والی تیل کی تجارت کو درہم برہم کر سکتا ہے۔ اس مناسبت سے تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ اب امریکی بحریہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ اس حوالے سے امریکی سینٹرل کمانڈ کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں صدر حسن روحانی نے رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جوہری ڈیل کے بقیہ دستخط کنندگان، جن میں برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کے علاوہ چین و روس بھی شامل ہیں، کی مضبوط ضمانت سے ایرانی ڈیل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ضمانت سے ایران امریکا کے بغیر جوہری ڈیل کا احترام جاری رکھے گا۔ جمعہ چھ جولائی کو ایرانی جوہری ڈیل میں شامل پانچ یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ ایرانی حکام سے ملاقات کریں گے۔
اُدھر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے یورپی اقوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایران کے بارے میں سخت موقف اختیار کریں۔ نیتن یاہو نے یورپیم اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ’دہشت گردی کو فروغ دینے والی‘ ایرانی حکومت کے ساتھ لین دین ختم کریں کیونکہ یہ دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ایران کو راضی رکھنے کی یورپی پالیسی کو ختم کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ اُن کی کمزوری کا عکاس ہے۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔