’روح کی غذا‘ سے متعلق نئی تحقیق
11 جنوری 2011دنیا بھر میں موسیقی کے سروں کے زیر اثر لطف لینے کو ایک فطری عمل خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے جذب کی حالت میں آ جانا بھی ایک فطری عمل ہے گردانا جاتا ہے۔ قوالی کے دوران وجد کو بھی ذہن کا انتہائی بلند احساس شادمانی قرار دیا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ موسیقی دماغی خلیوں میں ایک کیمیاوی مواد ڈوپامائن میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس مادے کی خون میں آمیزش سے انسان مسرت کی کیفیت کی جانب بڑھتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ ویسی ہی کیفیت ہے، جو ایک انسان عمدہ خوراک، نفسیاتی ادویات یا سرمائے کے حصول کے بعد محسوس کرتا ہے۔ ڈوپامائن نامی کیمیاوی مادہ دماغ کے اندر ہائپو تھیلمس نامی حصے کے علاوہ آنکھوں کے اوپر والے مقام کے اندر موجود خلیوں میں بھی پیدا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈوپامائن کی بعض اوقات زیادتی انسانی دماغ پر شدید اثرات کی حامل بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے باعث منفی کیفیت بھی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ اس مناسبت سے قوالی کے دوران وجد کی کیفیت میں بے ہوشی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ موسیقی کی تال پر رقص کے دوران جذب اور مستی کی کیفیت بھی ڈوپامائن ہی کا انتہائی اثر ہو سکتا ہے۔ اس پس منظر میں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یورپ میں گزشتہ چند برسوں سے صوفی موسیقی زیادہ مقبول ہوتی جا رہی ہے اور چند سماجی مفکرین نے اس موسیقی کو ماضی کی بعض ایسی تحریکوں کا نیا رنگ قرار دیا ہے، جن کے پیروکار بعد ازاں منشیات کا استعمال بھی کرنے لگے تھے۔
آنکھ جو موسیقی کے مسحور کن مظاہرے کو دیکھ رہی ہوتی ہے، اس پر اس کا اثر فوری ہوتا ہے کیونکہ بھنوؤں سے ذرا ہی اوپر ڈوپامائن پیدا کرنے والے حصے فعال ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ مادے نیورو ہارمون بھی کہلاتے ہیں۔ ان کی عصبی ٹرانسمشن میں اہم ترین غدود پیچوٹری کے ہارمونز کے ساتھ میل انسانی رویوں میں شدت کے ساتھ ساتھ شادمانی اور مسرت کے لیے ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس کا زیادہ اخراج حرکت قلب میں اضافہ اور بلند فشار خون کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔ وجد، لطف اور مسرت کی انتہائی صورت حال کے دوران دل کی کارکردگی میں خاص تیزی واضح طور ڈوپامائن کی زیادتی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
کینیڈا کے فرانسیسی بولنے والے صوبے کیوبک کے بڑے شہر مانٹریال کی مشہور زمانہ میک گِل یونیورسٹی میں کل 217 افراد پر موسیقی سے لطف انگیزی کے حوالے سے ریسرچ کا عمل جاری رکھا گیا۔ ان میں وہ آٹھ نوجوان رضاکار بھی شامل تھے، جن کی عمریں انیس سے چوبیس سال کے درمیان تھیں۔ ان کی ذہنی کیفیت کو مروجہ موسیقی کے مختلف اسلوب کے تحت پرکھا گیا۔
میک گِل یونیورسٹی کے محققین میں ویلوری سلیم پور (Valorie Salimpoor) اور رابرٹ زاٹور (Robert Zatorre) بھی شامل ہیں۔ ویلوری سلیم پور نامی خاتون محقق کا مضمون نیورو فزیالوجی ہے۔ وہ نیورو فزیالوجی کے معروف محقق ڈاکٹر رابرٹ زاٹور کی لیبارٹری میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک