1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روز بروز اہمیت اختیار کرتے انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات

27 اگست 2010

انٹرنیٹ ہماری روزانہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے۔ تاہم اس کا لمبے دورانیے کے لئے مسلسل استعمال اور پھر اس کو معمول بنا لینا ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک عام فرد کی زندگی اور اس کے دیگر معمولات شدید متاثر ہوتے ہیں۔

تصویر: picture alliance / dpa

معلومات کی تلاش یعنی براؤزنگ کرنی ہو یا دوستوں سے آن لائن چیٹنگ، وڈیوز دیکھنی ہوں یا کوئی پوڈکاسٹ سننی ہو، آن لائن ٹکٹوں کی بکنگ کرنا ہو یا آن لائن بینکنگ، انٹرنیٹ کے ذریعے نمٹائے جانے والے روزمرہ معمولات یا دیگر سرگرمیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

ہیمبرگ یونیورسٹی کے ہانس بریڈو انسٹیٹیوٹ برائے میڈیا ریسرچ کے یان ہینرِک شمٹ کے بقول انٹرنیٹ کی اس بڑھتی ہوئی اہمیت کے لئے محض ایک وجہ ہی کافی ہے کہ اس نے تکنیکی نوعیت کے مسائل دور کر کے تمام کاموں کی انجام دہی کو بہت ہی سہل بنا دیا ہے۔ شمٹ کے مطابق یہ ایک سیدھا سا اصول ہے کہ کہ انٹرنیٹ جتنا زیادہ لوگوں کو سہولیات مہیا کرے گا، لوگ اتنا ہی زیادہ اس پر وقت صرف کریں گے۔ جرمنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کی ملکی تنظیم Bitkom کے مطابق جرمنی کی کل 83 ملین کی آبادی میں سے 26 ملین افراد اپنے جملہ مالیاتی امور انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے سرانجام دیتے ہیں۔ ان میں سے 13 ملین اپنی تعطیلات کے لئے بکنگ بھی انٹرنیٹ ہی کے ذریعے کرتے ہیں جبکہ 60 فیصد افراد وقتاﹰ فوقتاﹰ آن لائن شاپنگ کرتے رہتے ہیں۔

ایک ہفتے میں 35 گھنٹے سے زائد وقت انٹرنیٹ پر صرف کرنا ضرورت سے زیادہ استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔تصویر: dpa

ایک حالیہ سروے کے مطابق 70 فیصد جرمن باشندے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ نوجوان انٹرنیٹ کے کچھ زیادہ ہی رسیا ہیں اور ان کی 98 فیصد تعداد کا آن لائن ہونا ایک معمول ہے۔ یعنی نوجوان تقریباﹰ مکمل طور پر ڈیجیٹل دنیا میں موجود ہیں۔

ہانس بریڈو انسٹیٹیوٹ برائے میڈیا ریسرچ کے یان ہینرِک شمٹ کے مطابق انٹرنیٹ ہمارے لئے اپنی زندگی میں نظم وضبط اور سہولیات پیدا کرنے کے لئے ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے، جسے ماہرین Development Habitualising کہتے ہیں۔

شمٹ کے بقول یہ خاص طور پر نوجوانوں کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ انٹرنیٹ بچپن سے ہی ان کی زندگی کا حصہ ہوتا، لہٰذا وہ اکثر اپنے دوست احباب اور دیگر ضروری افراد سے ہر وقت رابطے میں رہنا چاہتے ہیں، خاص طور پر فیس بک اور مائی سپیس جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے۔

ماہرین کے مطابق اس بات کا جواب کہ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال دراصل کب مسئلہ کہلائے گا، بہت ہی مشکل ہے۔ اس لئے کہ اکثر اوقات لوگ انٹرنیٹ پر کام کرتے ہوئے دیگر میڈیا سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں، جیسے میوزک سننا یا ٹیلی وژن دیکھنا یا اہم خبروں کا Ticker کی صورت میں نمودار ہوتے رہنا۔

انسٹیٹیوٹ برائے میڈیا اینڈ آن لائن اڈِکش (Institute for Media and Online Addiction) کے بیرنڈ بیرنر کےمطابق اس کا پتہ لگانے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ خود اس بات کا حساب رکھیں کہ آپ کتنے عرصے کے لئے اور کتنی کثرت سے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ایک ہفتے میں 35 گھنٹے سے زائد وقت انٹرنیٹ پر صرف کرنا ضرورت سے زیادہ استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔ بیرنر کے بقول بوریت اور دوسرے لوگوں سے دوری دراصل وہ وجوہات ہیں، جو آپ کو انٹرنیٹ کی جادوئی دنیا میں کھینچ لاتی ہیں۔

ایک سروے کے مطابق جرمن نوجوانوں کی 98 فیصد تعداد کا آن لائن ہونا ایک معمول ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa

انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال سے دراصل کسی بھی فرد کے سوچنے کے عمل اور عادات پر مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اگر آپ اپنے پروفائل میں تبدیلی پر آدھا گھنٹہ لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے باوجود بھی بغیر کسی خاص وجہ کے تین گھنٹے تک آپ کمپیوٹر کے سامنے موجود ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرنیٹ پر غیر ضروری وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کوئی طے شدہ لیکچر اٹینڈ کرنے یا سکول کالج کا کام چھوڑ کر کسی خاص آن لائن گیم کے اگلے لیول کےبارے میں سوچ رہے ہیں، تو یہ بھی انٹرنیٹ کے منفی استعمال کے زمرے میں آئے گا۔

انسٹیٹیوٹ برائے میڈیا اور آن لائن اڈِکش کے بیرنڈ بیرنر کےمطابق انٹرنیٹ کے استعمال کا آپ کے سونے کے اوقات یا دورانیے پر بھی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ شام کے اوقات میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر لوگوں کی سرگرمی کافی زیادہ دیکھی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر آپ کے اگلے دن کے معمولات پر بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ بیرنر کے مطابق اصل مسئلہ اس وقت سامنے آتا ہے، جب آپ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے حوالے سے خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ اگر آپ انٹرنیٹ کے استعمال کی وجہ سے اپنے سکول، ملازمت، تعلقات یا رشتوں سے انصاف نہیں کر پا رہے تو یہ انٹرنیٹ کے غیر ضروری اور منفی حد تک زیادہ استعمال کی نشانی ہے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں