روسی، امریکی جنگی طیارے فضا میں تصادم سے بال بال بچ گئے
8 ستمبر 2016آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے جمعرات آٹھ ستمبر کو موصولہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکی دفاعی اہلکاروں کے مطابق اس واقعے میں بحیرہ اسود کے علاقے میں بین الاقوامی فضائی حدود میں بدھ سات ستمبر کے روز ایک روسی فائٹر جیٹ امریکی بحریہ کے ایک ہوائی جہاز کے اس قدر ’خطرناک حد تک قریب‘ آ گیا کہ دونوں طیاروں کا درمیانی فاصلہ بہت ہی کم رہ گیا تھا۔
ایک امریکی دفاعی اہلکار نے نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ یہ روسی جنگی طیارہ SU-27 Flanker طرز کا تھا، جس نے امریکی نیوی کے P-8A Poseidon طرز کے ایک ہوائی جہاز کا فضا میں پیچھا کیا اور یہ ’انتہائی خطرناک عمل‘ 19 منٹ تک جاری رہا۔
امریکی حکام کے بقول امریکی بحریہ کا طیارہ اس وقت فضا میں اپنی ’معمول کی نگران پرواز‘ پر تھا اور ایک وقت تو ایسا بھی آ گیا تھا کہ دونوں طیاروں کے درمیان صرف تین میٹر کا فاصلہ باقی رہ گیا تھا۔
ڈی پی اے کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا بہت کم دیکھنے میں آنے والا ایک ایسا واقعہ تھا، جس کا نتیجہ فضا میں ان دونوں طیاروں کے درمیان تصادم کی صورت میں بھی نکل سکتا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق روس اور امریکا اگرچہ اپنے فوجی طیاروں کی پروازوں کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ معمول کے رابطے میں رہتے ہیں تاہم ’یہ ایک ایسی غیر محفوظ کوشش تھی، جو باعث تشویش‘ ہے۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے اس اہلکار نے مزید کہا، ’’ایسے واقعات ممکنہ طور پر ایسے حالات کی وجہ بن سکتے ہیں کہ ماسکو اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی میں غیر ضروری طور پر اضافہ ہو جائے۔ ان واقعات کے نتیجے میں کسی بھی وقت کوئی جان لیوا حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے۔‘‘
ادھر ماسکو میں روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے اس واقعے کی تصدیق تو کی ہے لیکن کہا ہے کہ روسی جنگی طیارے کے پائلٹ نے نہ تو کوئی اشتعال انگیزی کی اور نہ ہی کسی قانون کی خلاف ورزی۔ ’’روسی پائلٹ کا رویہ اور اقدام بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق تھے۔‘‘
ایگور کوناشینکوف نے مزید کہا، ’’امریکی بحریہ کے ہوائی جہاز نے اپنی الیکٹرانک شناخت کو ممکن بنانے والے آلات سوئچ آف کرنے کے بعد دو مرتبہ دانستہ طور پر روسی فضائی حدود کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ اس پر کریمیا کے ایک فضائی اڈے پر موجود روسی جنگی طیاروں کو اس امریکی ہوائی جہاز کو روکنے کے لیے یہ اقدام کرنا پڑا۔‘‘