روسی انٹیلیجنس کے دفتر میں بم حملہ، ’نابالغ دہشت گرد ہلاک‘
31 اکتوبر 2018
روس میں داخلی سیکرٹ سروس ایف ایس بی کی ایک عمارت میں کیے گئے ایک بم حملے میں مبینہ نابالغ حملہ آور مارا گیا۔ اس بم دھماکے میں روسی انٹیلیجنس کے تین اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ حکام کے مطابق یہ ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی۔
اشتہار
روسی دارالحکومت ماسکو سے بدھ اکتیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملکی حکام اس بم دھماکے کو واضح طور پر دہشت گردانہ کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ اس حملے میں، جو شمالی روس کے شہر آرکانگَیلسک (Archangelsk) میں کیا گیا، روس کی داخلی انٹیلیجنس سروس FSB کی ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا۔
اس واقعے میں ایک 17 سالہ نوجوان روس کی داخلی خفیہ سروس کی ایک عمارت میں داخل ہوا اور اس نے عمارت کے صدر دروازے کے پاس ہی اپنے بیگ سے ایک بم نکال کر دھماکا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم دیسی ساخت کا یہ بم اس نابالغ حملہ آور کے ہاتھوں میں ہی پھٹ گیا۔
روس کی انسداد د ہشت گردی کی قومی کمیٹی نے ماسکو میں بتایا کہ اس بم دھماکے میں نوجوان حملہ آور شدید زخمی ہو گیا تھا، جو کچھ ہی دیر بعد دم توڑ گیا۔ اس حملے میں ایف ایس بی کے تین اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ روسی حکام نے اس واقعے کی ایک دہشت گردانہ حملے کے طور پر چھان بین شروع کر دی ہے۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ فوری طور پر اس بم حملے کی وجوہات اور پس منظر تو ظاہر نہیں لیکن جس نوجوان نے آج بدھ کی صبح روس کے اس شمالی بندرگاہی شہر میں یہ حملہ کیا، وہ اسی شہر کا رہنے والا تھا۔ اس حملے کے بعد پورے روس میں تمام سرکاری عمارات کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اقدامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔
روس میں گزشتہ برس اپریل میں بھی مشرقی سائبیریا کے علاقے میں داخلی سیکرٹ سروس ایف ایس بی کے ایک دفتر پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں ایک مسلح شخص نے اس دفتر میں گھس کر فائرنگ کرتے ہوئے دو افراد کو قتل کر دیا تھا اور پھر خود کو گولی مار کو خودکشی کر لی تھی۔ اس حملے کی ذمے داری ممنوعہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔
آج روس کی اسی انٹیلیجنس سروس کی ایک اور عمارت میں کیے گئے بم دھماکے کے بارے میں بھی تفتیشی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا، جس کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
م م / ش ح / روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔