روسی اپوزیشن کے تین رہنماؤں کو سزا
3 جنوری 2011روسی عدالت کا موقف ہے کہ ان افراد نے نئے سال کے موقع پر ایک غیر قانونی مظاہرے میں شرکت کی اور پولیس کے احکامات ماننے سے بھی انکار کیا۔ جن افراد کو سزا سنائی گئی ہے ان میں سابق نائب وزیراعظم اور آج کل حزب اختلاف کے سربراہ بورس نیمٹسوف بھی شامل ہیں۔ ان کا شمار صدر دیمتری میدویدیف اور وزیراعظم ولادیمیر پوٹن کے شدید ناقدین میں ہوتا ہے۔ انہیں پہلے بھی مختلف مقدمات میں پابند سلاسل رکھا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ کونسٹانٹن کوسیانک کو دس دن جبکہ الیایاسچن کو پانچ روز تک قید میں رکھا جائے گا۔
تقریباً ایک سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روس میں اپوزیشن رہنماؤں کو قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ پولیس نے حکم عدولی کے جرم میں ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ سے مزید 130 افراد کو بھی حراست میں لیا ہے۔ ان مظاہروں میں شرکاء نے میخائل خودورکوفسکی کےحق میں بھی نعرے بازی کی۔ روس میں تیل کی صنعت سے وابستہ اس ارب پتی شخصیت کو گزشتہ دنوں مزید کئی سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس موقع پر بورس نیمٹسوف کا کہنا تھا، ’’روس میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ امریکہ سمیت یورپی یونین کے ممالک نے خودورکوفسکی کو نئی سزا سنائے جانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔
ماسکو کی شہری انتظامیہ نے چھوٹے پیمانے پراس احتجاج کی اجازت دی تھی۔ تاہم ایک اخباری نمائندے کے مطابق نیمٹسوف اور ان کے حامیوں نے پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے کریملن کے قریب جانے کی کوشش کی۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس خبرکی تصدیق نہیں ہو سکی۔ نیمٹسوف نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں سرکاری ذرائع کی طرف سے طاقت کے استعمال پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ ان کے علاوہ ایک اور اپوزیشن رہنما اولگا شورینا کا کہنا تھا کہ حکومت اس طرح کے اقدامات سے حزب اختلاف کو ڈرانا دھمکانا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ ادیب اور اپوزیشن رہنما ایڈورڈ لیمانوف کو ماسکو میں ان کے گھر کے پاس سے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے فوراً بعد ہی پولیس کو برا بھلا کہنے کے جرم میں انہیں 15 دن قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
روس میں ہر ماہ کے آخری دن حزب اختلاف کے حامی اور رہنماؤں کی جانب سے کریملن کے خلاف احتجاج کرنا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس کا مقصد روسی آئین کی شق 31 کی یاد دہانی کرانا ہے، جس میں روس میں عوامی اجتماع کی آزادی کی بات کی گئی ہے۔ ہر مرتبہ پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشرکرنے کی کوشش کرتی ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک