1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی جنگی بحری جہاز، شامی بندرگاہ میں آمد آج متوقع

7 جنوری 2012

روس کے دو جنگی بحری جہاز متوقع طور پر آج ہفتے کو کسی وقت طرطوس کے شامی شہر کی بندرگاہ پر پہنچ جائیں گے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

روس اور شام سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان روسی جنگی جہازوں کی آمد ممکنہ طور پر شام میں صدر بشار الاسد کی انتظامیہ کے لیے ماسکو کی حمایت میں فوجی طاقت کے مظاہرے کے طور پر دیکھی جائے گی۔
روسی خبر ایجنسی ایتار تاس نے لکھا ہے کہ یہ جنگی بحری جہاز ایڈمرل شابانینکو اور یاروسلاو مودرائی ہیں جو طرطوس (Tartus) کی شامی بندرگاہ پر معمول کی دیکھ بھال اور سپلائی کے لیے وہاں قائم روسی بحری تنصیبات تک پہنچیں گے۔ یہ روسی جنگی جہاز ماسکو کے ان جنگی جہازوں کے گروپ میں شامل ہیں، جو اس وقت بحیرہء روم کے علاقے میں موجود ہیں۔
طرطوس کی بندرگاہ شام کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ وہاں قائم روسی بحری تنصیبات ماسکو کے ان چند بحری اڈوں میں سے ایک ہیں جو روس نے بیرون ملک قائم کر رکھے ہیں۔ یہ روسی بحری جہاز کئی دنوں تک طرطوس کی بندرگاہ میں رکیں گے۔
شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جمہوریت نواز اپوزیشن کارکنوں کی طرف سے خونریز مظاہرے اور احتجاج گزشتہ قریب دس مہینوں سے جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس حکومت مخالف تحریک میں پچھلے سال مارچ سے لے کر اب تک چھ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ایسے مظاہرین کے خلاف شامی سکیورٹی دستوں کے کریک ڈاؤن کی بین الاقوامی سطح پر سخت مذمت کی جا رہی ہے لیکن یہ کریک ڈاؤن ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
عرب لیگ نے شام کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وہاں اپنے مبصرین کا ایک وفد بھی بھیج رکھا ہے لیکن اس کا بھی ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ عالمی سلامتی کونسل اب تک شام کے ِخلاف اقدامات کی کئی مرتبہ کوششیں کر چکی ہے لیکن روس اور چین کی مخالفت کی وجہ سے ایسی کوششیں تاحال زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بار پھر شام کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال اور وہاں حکومت مخالف مظاہرین پر سرکاری دستوں کے کریک ڈاؤن پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق میں کل جمعے کو ایک خود کش حملے میں مزید کم از کم 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بان کی مون نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا کہ شام میں خونریزی کا سلسلہ بالآخر بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں موجودہ حالات پر گہری تشویش ہے جہاں پچھلے سال مارچ سے لے کر اب تک مسلسل ہلاکتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
دمشق میں اس تازہ ترین بم حملے میں چھبیس افراد کی ہلاکت کے علاوہ پچاس سے زائد زخمی بھی ہو گئے تھے۔ دمشق حکومت ان حملوں کا الزام مسلمان انتہا پسندوں پر عائد کرتی ہے۔ اس کے برعکس شامی اپوزیشن کا الزام ہے کہ کل جمعے کا بم حملہ دمشق حکومت کی طرف سے حکومت مخالف مظاہرین سے بدلہ لینے کی ایک کوشش تھا۔
کل جمعے کو بھی شام کے مختلف شہروں میں ہزار ہا مظاہرین نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اس دوران سکیورٹی دستوں کی فائرنگ سے مزید کم از کم آٹھ مظاہرین مارے گئے تھے۔

تصویر: picture-alliance/dpa
شامی صدر بشار الاسدتصویر: AP

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت:عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں