نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع نے یہ تسلیم کیا ہے کہ روسی حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ حملے ٹینکوں یا پھر راکٹوں سے نہیں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔ تبصرہ نگار میوڈراگ زورچ کے مطابق یہ حملے بلا مقصد نہیں ہیں۔
تصویر: Imago/Hollandse Hoogte
اشتہار
پیش کیے گئے شواہد انتہائی مستند معلوم ہوتے ہیں۔ ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے روس کے ان ایجنٹوں کے نام اور عہدے بھی بتائے ہیں، جن کا حالیہ سائبر حملوں کے پیچھے ہاتھ ہے۔ اسی طرح امریکا، کینیڈا، ڈنمارک اور آسٹریلیا نے بھی روسی ہیکرز کے حملوں کی شکایت کی ہے۔ اس کے باوجود کہ پہلی نظر میں ان ممالک کے یہ الزامات منصوبہ بندی کا حصہ لگتے ہیں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ روسی سائبر ایجنٹ مغربی اداروں، پارٹیوں، کمپنیوں اور سپورٹس ایسوسی ایشنز کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
تبصرہ نگار میوڈراگ زورِچ
ماسکو حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے لیکن یہ مشینی اور تنگ کر دینے والے جارحانہ حملے انتہائی خاموشی سے کیے جاتے ہیں۔ مغرب روس کے خلاف پابندیاں عائد کرتا ہے تو اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ ان پابندیوں کا جہاں روس کو نقصان ہوتا ہے، وہاں مغرب کو بھی ہو رہا ہے۔
کیا یہ حملے فوجی بجٹ میں اضافے کے لیے ہیں؟
کیا یہ کھیل فوجی بجٹ میں اضافے کے لیے کھیلا جا رہا ہے؟ روسی سائبر حملوں کے تناظر میں نیٹو ممالک نے بھی اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔صدر پوٹن نے اصل میں اعلان کیا تھا کہ وہ سن دو ہزار انیس میں فوجی بجٹ میں کمی کا اعلان کریں گے۔ روسی صدر کو کمزور ہوتی معیشت کے لیے زیادہ پیسے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے جرنیلوں کو کبھی بھی یہ بات پسند نہیں آئے گی۔ ابھی سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اسی وجہ سے روسی فوجی خفیہ ایجنسی جی آر یو نے حالیہ سائبر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
مخالفین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہمیشہ فوجی اور دفاعی بجٹ کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ دوسری جانب یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ نومبر کے اواخر میں واشنگٹن حکومت روس مخالف پابندیوں میں زبردست اضافہ کرے گی اور ماسکو کے پاس مثالی رویہ اپنانے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔
ماسکو کی حالیہ جارحیت کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہو، کبھی نہ کبھی کریملن کو واپس اپنی جگہ آنا ہی پڑے گا۔ اچھے تعلقات نہ صرف روس بلکہ مغرب کے بھی مفاد میں ہیں۔ مغرب کا چین کے ساتھ اتحاد بھی شراکت داری کے حوالے سے کوئی متبادل نہیں ہے۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔