روسی صدر ایران میں، جنگ زدہ شام میں تعاون بھی اہم موضوع
شمشیر حیدر dpa/AP/AFP
1 نومبر 2017
روسی صدر آج ایک روزہ دورے پر تہران پہنچے ہیں جہاں وہ ایران اور آذربائیجان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جوہری معاہدے کی تجدید نہ کرنے کے اعلان کے تناظر میں یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے دورہ ایران کے دوران دونوں ممالک کے رہنما علاقائی صورت حال، دہشت گردی اور سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ علاوہ ازیں آذربائیجان، روس اور ایران کے مابین سہ فریقی مذاکرات میں پڑوسی ممالک کے مابین ریلوے اور شاہراہوں کی تعمیر سے متعلق منصوبوں پر بھی غور کیا جائے گا۔
صدر پوٹن اس سے قبل سن 2015 اور سن 2007 میں بھی ایران کا دورہ کر چکے ہیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے شدہ جوہری معاہدے کی تجدید نہ کرنے کے اعلان کے بعد روسی صدر کے آج کے دورے کی اہمیت ماضی کی نسبت زیادہ سمجھی جا رہی ہے۔
روسی صدر تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے۔ علی خامنہ ای ایران کے طاقتور روحانی پیشوا ہیں اور ملکی معاملات میں حتمی اختیار انہی کے پاس سمجھا جاتا ہے۔
روس اور ایران کے خطے میں کئی مشترکہ مفادات ہیں، دونوں ممالک شامی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے اہم ترین حامی اور اتحادی ہیں۔
صدر پوٹن کے دورے سے قبل روسی افواج کے سربراہ جنرل والیری گیراسیموف نے بھی ایران کا دورہ کیا اور اپنے ایرانی ہم منصب جنرل محمد حسین باقری سے ملاقات کی۔ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے دونوں ممالک کی افواج کے سربراہوں کی اس ملاقات کے بارے میں زیادہ تفصیلات بتائے بغیر صرف اتنا بتایا کہ اس دوران دفاع اور سکیورٹی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
روس دو نئے جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر میں بھی ایران کی مدد کر رہا ہے۔ سن 2011 میں روس کے تعاون سے ہی ایران کے پہلے ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔
حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘
01:01
صدر ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود روس نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے شدہ جوہری معاہدے کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس معاہدے میں روس اور امریکا کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان سبھی فریقوں نے بھی صدر ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کریں۔
تہران میں ایک سیاسی تجزیہ نگار سعید لیلاز نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صدر پوٹن کے دورے کے بعد ایران میں روسی سرمایہ کاری متوقع ہے جس کے بعد یورپی یونین اور چین سمیت امریکی کمپنیوں کے لیے بھی ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔