روسی صدر ولادیمیر پوٹن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ٹیکسی چلانے پر بھی مجبور ہوئے۔ اس بات کا اقرار پوٹن نے اس کمیونسٹ ملک کا شیرازہ بکھرنے کے تباہ کُن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کیا۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ سابق سوویت یونین کی شکست و ریخت کے منفی اثرات نے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ گو یہ ایک حقیقت ہے جس کے بارے میں بات کرنا نہایت ناخوشگوار عمل ہے کہ خود ان کی زندگی پر اس کے اثرات بہت گہرے اور منفی ثابت ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر ایسا برا وقت بھی آیا کہ انہیں ٹیکسی چلانا پڑی۔
روس کی سرکاری نیوز ایجنسی RIA Novosti کی طرف سے اتوار کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق روسی صدر پوٹن نے سوویت یونین کے زوال کے بعد اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکسی چلائی۔
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
12 تصاویر1 | 12
ایک دستاویزی فلم میں روسی نیوز ایجنسی نے روسی رہنما کو یہ کہتے ہوئے دکھایا ، '' بعض اوقات مجھے اضافی پیسے کمانا پڑتے تھے۔‘‘ ولادیمیر پوٹن کے بقول، ''میرا مطلب ہے ایک پرائیوٹ ڈرائیور کے طور پر گاڑی چلا کر مجھے اضافی پیسے کمانا پڑتے تھے۔ ایمانداری سے بات کرنا ناخوشگوار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ سچ ہے اور ایسا ہی ہوا تھا۔‘‘
ولادیمیر پوٹن تین دہائیوں قبل سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ زیادہ تر روسی شہریوں کے لیے ایک المیہ تھا۔‘‘ پوٹن نے سوویت یونین کے ٹوٹنے پر یہ بھی کہا تھا کہ یہ واقعہ '' تاریخی روس‘‘ کے خاتمے کی علامت تھا۔
طاقتور سربراہان کے شاندار محلات
حالیہ دور میں کئی ممالک کے سربراہان نے شاندار اور پرشکوہ محلات تعمیر کروائے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال روس کے صدر ولادمیر پوٹن کا بحیرہ اسود کے ساحل پر تعمیر کیا جانے والا عالیشان محل ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
صدر پوٹن کا محل
اس کا انکشاف روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی نے ایک ویڈیو پوسٹ میں کیا جو وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کو نوے ملین سے زائد دفعہ یو ٹیوب پر دیکھا جا چکا ہے۔ بحیرہ اسود کے کنارے پر تعمیر کیے گئے اس محل کی قیمت ایک ارب یورو سے زیادہ ہے۔ ناوالنی کے مطابق یہ محل مناکو کے شہزادے کے محل سے بھی 40 گنا بڑا ہے۔ روسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ محل کئی کاروباری حضرات کی مشترکہ ملکیت ہے جن کے نام افشا کرنا ممکن نہیں۔
تصویر: Navalny Life youtube channel/AP Photo/picture alliance
مراکش کا شاہی محل
یہ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کے دس بارہ محلات میں سے ایک محل ہے۔ کرپشن پر کی کتاب ’کنگ آف تھیوز‘ (چوروں کا بادشاہ) کے مطابق ان محلوں کا روزانہ خرچ لگ بھگ بارہ لاکھ یورو ہے۔ یہ محل انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس میں بادشاہ کے بچوں کے لیے ایک الگ اسکول ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
اردوآن کا محل
صدر رجب طیب اردوآن نے پندرہ ملین یورو سے یہ ایک مضبوط اور عالیشان محل تعمیر کرایا۔ یہ محل ’ون لیک‘ کے شمال میں بنایا گیا ہے۔ اس کا طرز تعمیر قدیمی قطب آباد محل جیسا ہے۔ یہ محل سلجوک حکمران سلطان علی الدین نے تیرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ محل کی تعمیر پرعدالتی پابندی تھی جسے ترک صدر نے خارج کرکے اپنے لیے یہ تیسرا پرآسائش محل بنوایا۔
برونائی کے دارالحکومت سری بھگوان میں دنیا کا سب سے بڑا محل واقع ہے۔ اس کی تعمیر سن 1984 میں مکمل ہوئی۔ سلطان حسن البلقیہ کا یہ محل دو لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔ اس میں ایک ہزار آٹھ سو کمرے، ڈھائی سو باتھ روم اور اوپر نیچے جانے کے لیے سترہ لفٹیں ہیں۔ اس محل کی لاگت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
تصویر: Albert Nieboer/RoyalPress/dpa/picture alliance
راشٹر پتی بھون، نئی دہلی
بھارت کے صدر کی رہائش گاہ کی تعمیر سترہ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ سن 1950 سے یہ بھارت کے صدر کی رہائش گاہ یا راشترپتی بھون کہلاتی ہے۔ اس میں تین سو چالیس کمرے اور کئی ہال ہیں۔ اس کے کوریڈورز کی مجموعی لمبائی ڈھائی کلو میٹر بنتی ہے۔ اس سے ملحقہ مغل باغ اتنا بڑا ہے کہ اس میں ایک سو فُٹ بال گراؤنڈز سما سکتے ہیں۔
تصویر: Mayank Makhija/NurPhoto/picture alliance
ابو ظہبی کا الوطن محل
الوطن محل باغات میں گِھرا ہوا ہے اور اپنے سفید گنبدوں کی وجہ سے انتہائی پرشکوہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کل رقبہ تین لاکھ ستر ہزار مربع میٹر ہے۔ سنگ مرمر کی دیواریں اور سونے کے منقش دروازے اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ اس محل میں متحدہ عرب امارات کے حکمران اور ولی عہد کے علاوہ کابینہ کے ارکان کی رہائش گاہیں ہیں۔
تصویر: Erich Meyer/euroluftbild.de/picture alliance
تاجک صدارتی محل
وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کا صدارتی محل ایک قومی نشان اور سفید ہونے کی وجہ سے ’وائٹ ہاؤس‘ کہلاتا ہے۔ اس محل کے گراؤنڈ میں دنیا کی دوسری بلند ترین فائبر گلاس کی چھت ہے، جو کہ ایک سو پینسٹھ میٹر بلند ہے۔
تصویر: Halil Sagirkaya/AA/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
سوویت یونین کا خاتمہ اپنے ساتھ شدید معاشی عدم استحکام کا دور لے کر آیا۔ ایک ایسا دور جس میں لاکھوں افراد غربت کی دلدل میں دھنس گئے اور ایک نیا آزاد روس کمیونزم یا اشتراکیت سے نکل کر سرمایہ درانہ نظام کا حصہ بن گیا۔
روسی صدر ولادیمیر کے یہ بیانات اورر تبصرے ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئے ہیں جب ان پر ناقدین کی طرف سے یوکرائن پر حملے کے ذریعے درباہ سے سوویت یونین کی تشکیل کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
اُدھر کریملن اس طرح کے مفروضات کو مغرب کی طرف سے خوف و ہراس پھیلانے کی کوششیں قرار دیتے ہوئے ان الزامات کی مسلسل تردید کر رہا ہے۔ ساتھ ہی کریملن کا یہ کہنا ہے کہ ماسکو اپنے پڑوسی پر اُس وقت حملہ کرے گا جب کییف حکومت یا کسی اور ریاست کی طرف سے روس کو اشتعال دلایا جائے یا اُکسایا جائے۔