روسی صدر پر اثر انداز ہونے والے کیریل دیمتریئف کون ہیں؟
26 نومبر 2025
کیریل دیمتریئف روسی ریاستی سرمایہ کاری فنڈ (آر ڈی آئی ایف) کے سربراہ ہیں اور ان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین میں امن کے لیے 28 نکاتی منصوبے کے پیچھے اہم معماروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ دیمتریئف نہ صرف ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر سے قریبی تعلقات کے حامل ہیں بلکہ عرب دنیا کے بااثر طاقت کے مراکز سے بھی گہرے رابطے رکھتے ہیں۔ کاروباری تجربے اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خاندان سے روابط کی بدولت وہ روس کے غیر سرکاری متبادل مذاکرات کار کے طور پر ایک مثالی شخصیت بن چکے ہیں۔
روسی سفارت کاری کا ایک اہم چینل
جنوری 2025ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر کے طور پر دوسرے دور کے آغاز سے کیریل دیمتریئف کی اہمیت کریملن کے لیے بڑھ گئی ہے۔ اس دوران وہ یوکرین امن مذاکرات اور وسیع تر روسی۔امریکی تعلقات پر روس کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک کے طور پر سامنے آئے۔
فروری 2025ء میں پوٹن نے انہیں غیر ملکی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی تعاون کے لیے صدارتی خصوصی ایلچی مقرر کیا۔ یہ تقرری ریاض میں روسی اور امریکی نمائندوں کی پہلی ملاقات کے چند دن بعد ہوئی، جس میں دیمتریئف نے بھی حصہ لیا تھا۔
سابق روسی سفارت کار بوریس بونڈاریف کے مطابق آج کل دیمتریئف کریملن کی سفارت کاری کے اہم چینلوں میں سے ایک ہیں۔ جہاں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے معاملات طے کرتے ہیں، وہیں دیمتریئف کو امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کے ساتھ رابطوں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
بونڈاریف کہتے ہیں، ''دیمتریئف وِٹکوف تک رسائی کا راستہ ہیں۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ میں کمزور، دراصل بہت کمزور ہدف ہیں۔ سب نسبتاً کمزور ہیں لیکن یہ سب سے کمزور ہے۔ اسی لیے دیمتریئف کو ان کے ساتھ کام سونپا گیا ہے تاکہ اس خاص کمزور چینل کے ذریعے روس کا نقطہ نظر آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘
دیمتریئف کا کیریئر کیسے شروع ہوا؟
مشہور حیاتیات دان الیگزینڈر دیمتریئف کے بیٹے کیریل دیمتریئف کی پیدائش کییف میں ہوئی۔ تاہم وہ اپنی جڑوں کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دکھاتے ہیں۔ 2021ء میں آزاد روسی میڈیا آؤٹ لیٹ 'دی بیل‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اصرار کیا کہ وہ یوکرین میں نہیں بلکہ سوویت یونین میں پیدا ہوئے تھے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے امریکہ میں رہے، جہاں آر ڈی آئی ایف کی ویب سائٹ پر موجود سرکاری سوانح کے مطابق انہوں نے سرمایہ کاری بینک گولڈمین سیکس اور مشاورتی فرم مک کینزی میں کیریئر کا آغاز کیا۔ آخر کار انہوں نے روس اور یوکرین میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔
روس میں ان کی اہم ذمہ داریوں میں روسی۔امریکی فرم ڈیلٹا پرائیویٹ ایکوئٹی پارٹنرز شامل تھی، جو تقریباً 500 ملین ڈالر کے فنڈز کا انتظام کرتی تھی۔ یوکرین میں دیمتریئف نے ملک کے دوسرے یوکرینی صدر لیونیٹ کوچما کے داماد سے تعلق رکھنے والے ایک فنڈ کی سربراہی کی۔
2011 ء میں وہ روسی ڈائریکٹ انویسٹمنٹ فنڈ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ یہ ادارہ مغربی سرمایے کو ملک میں لانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یوکرین میں جنگ شروع ہوتے ہی وہ امریکہ اور یورپ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
ولادیمیر پوٹن سے خاندانی رابطے؟
دیمتریئف کو بین الاقوامی امور کی صفِ اول میں لانے میں صرف پیشہ ورانہ کامیابیاں ہی کارگر نہیں رہیں بلکہ ان کی اصل طاقت ان کا سماجی سرمایہ رہا ہے یعنی برسوں سے احتیاط سے استوار کیا گیا نیٹ ورک۔
این جی او ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل روس کے سابق سربراہ ایلیا شومانوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے یوکرین کے دوسرے صدر کے داماد سے تعلق نے شاید روسی سیاسی و کاروباری اشرافیہ کے دروازے کھولے ہوں۔
شومانوف کہتے ہیں: '' رابطوں کے اس جال میں کلیدی ٹکڑا کاتیرینا تِخونووا تھیں۔ ولادیمیر پوٹن کی مبینہ بیٹی، جن سے دیمتریئف کی اہلیہ قریبی تعلقات رکھتی ہیں۔‘‘
ان کے مطابق دیمتریئیو خاندان اور تِخونووا کے درمیان تعلقات محض دوستی سے بڑھ کر ہیں، دونوں خاندان گہرے طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
دیمتریئف کئی بڑی روسی کمپنیوں کے بورڈز میں شامل رہے، جن میں ریاستی ملکیت کی حامل کمپنیاں بھی شامل تھیں۔
جب دیمتریئف پوٹن کی نظروں میں آئے
کیریل دیمتریئف کا ثالث کا کردار ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں شروع ہوا۔ 2020ء میں دی ڈیلی بیسٹ نے انہیں ''پوٹن کا منی مین‘‘ قرار دیا تھا، جو جیرڈ کُشنر سے خفیہ رابطے رکھتا ہے۔
جیرڈ کشنر، ٹرمپ کے داماد اور ایوانکا ٹرمپ کے شوہر، صدر کی خارجہ پالیسی کی ذمہ داریاں سنبھالتے تھے۔ دوسرے دور میں وہ عوامی طور پر اتنے زیادہ نظر نہیں آتے تاہم حال ہی میں ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی تیاری میں ملوث رہے اور جنیوا میں یوکرین امن مذاکرات میں بھی شریک ہوئے۔
ٹرمپ کے پہلے دور میں دیمتریئف اور کشنر نے روس میں امریکی سرمایہ کاری کے ممکنہ راستوں پر بات چیت کی لیکن یہ مذاکرات بڑے منصوبوں میں تبدیل نہ ہو سکے۔
سیاسی تجزیہ کار اور پوٹن کے سابق تقریر نویس عباس گلیاموف کے مطابق یوکرین میں مکمل جنگ شروع ہونے کے تقریباً دو سال بعد دسمبر 2023ء میں دیمتریئف واقعی اپنا اثر و رسوخ دکھانے میں کامیاب ہوئے اور روسی خارجہ پالیسی کے سب سےمرکزی کرداروں میں سے ایک بن گئے۔
گلیاموف یاد دلاتے ہیں: ''جنگ شروع ہونے کے بعد پوٹن (آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے) کہیں سفر نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تنہائی کا احساس انہیں اور پورے روس کو شدید پریشان کر رہا تھا اور تب کیریل دیمتریئف نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے کے مرکزی منتظم کا کردار ادا کیا۔‘‘
صرف دورے کا اہتمام ہی نہیں بلکہ دیمتریئف اور ان کے سرکاری سرمایہ کاری فنڈ نے ان ممالک سے سرمایہ کاری بھی حاصل کی۔ مغربی سرمایے کے انخلا کے دوران یہ ایک قابلِ ذکر کامیابی تھی۔
گلیاموف کہتے ہیں: ''دوسرے لفظوں میں وہ بین الاقوامی سطح پر انتہائی موثر ثابت ہوئے۔‘‘
دیمتریئف بمقابلہ لاوروف
گلیاموف دیمتریئف کو امریکہ اور روس کے درمیان تنازعات کو سمجھوتے کے ذریعے حل کرنے والا شخص سمجھتے ہیں جبکہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سخت گیر موقف کے حامی ہیں۔
گلیاموف کہتے ہیں، ''جب پوٹن کو لگتا ہے کہ حقیقی مذاکرات ضروری ہیں تو دیمتریئف آگے آتے ہیں۔ لیکن بہت سی صورتحال میں پوٹن مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔ لاوروف اسی اندرونی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘
گلیاموف نے نشاندہی کی کہ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کے حالیہ ماسکو دورے کے موقع پر پوٹن نے ان سے دیمتریئف اور اپنے مشیر یوری اوشاکوف کے ہمراہ ملاقات کی، جبکہ لاوروف اس ملاقات میں موجود نہیں تھے۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ وقتی انتخاب روسی سفارت کاری کے مستقبل کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے یا نہیں۔
ادارت: شکور رحیم