یوکرین پر ماسکو کی جانب سے فوجی حملے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن پہلی مرتبہ میڈیا سے روبرو ہوں گے۔ اس پریس کانفرنس کے لیے مبینہ طورپر ایک ملین سے زیادہ سوالات موصول ہوئے ہیں۔
اشتہار
تقریباً ایک سال کی خاموشی کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنی سالانہ اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس جمعرات کو ہوگی اور اسے سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔
پوٹن جو وزیر اعظم یا صدر کے طورپر سن 2000 سے روس پر برسراقتدار ہیں، گزشتہ سالوں میں بیشتر اوقات ان میڈیا پروگراموں کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ یہ پریس کانفرنسز بعض اوقات چار گھنٹے سے بھی زیادہ چلتی ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بتایا کہ جمعرات کے روز ہونے والی پریس کانفرنس مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے شروع ہوگی اور تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہنے کی توقع ہے۔ انہوں نے تاہم واضح کیا کہ اس کے لیے وقت کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔
گزشتہ دسمبر میں پوٹن نے دس سال میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس منسوخ کردی تھی۔ کریملن پر نگاہ رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ پوٹن بین الاقوامی صحافیوں کے سوالات سے بچنا چاہتے تھے کیونکہ ان کی فوج کو یوکرین میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لیکن یوکرین کے خلاف اپنے جارحانہ اقدام کے تقریباً دو سال بعد پوٹن شاید اس خیال کو بدل دینا چاہتے ہیں۔ یوکرین کی تازہ ترین کارروائی روس کے محفوظ فوجی حصار کو توڑنے میں ناکام رہی ہے اور اس کے اتحادیوں کی حمایت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
پوٹن کی پریس کانفرنس کیسی لگتی ہے؟
پوٹن نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ مارچ 2024 کے انتخابات میں ایک اور صدارتی مدت کے لیے حصہ لیں گے۔ وہ اپنی پریس کانفرنسوں کا استعمال خود کو تمام مسائل کا حل کرنے والے کے طور پر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
سال کے اواخر میں ہونے والی پوٹن کی سابقہ پریس کانفرنسوں کے برخلاف اس بار سرکاری طورپر تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا ہے اور کریملن نے صرف منتخب صحافیوں کو دعوت نامی جاری کیے ہیں۔
پریس کانفرنس کے بعد عام روسیوں کے سوالات کے جواب دیے جائیں گے جسے "ولادیمیر پوٹن سے براہ راست بات چیت " کہا جاتا ہے لیکن اس کے لیے سوالات کے سلسلے میں ایک محتاط طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
جن "خوش قسمت" شہریوں کوپوٹن سے سوال پوچھنے کا موقع ملتا ہے ان کے بیشتر سوالات گھریلو مسائل، صحت کی دیکھ بھال، معیشت اور بنیادی ڈھانچے جیسے عام موضوعات پر ہوتے ہیں۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق ڈیڑھ ملین سے زائد سوالات جمع ہوئے ہیں۔
پوٹن کے بلیک لسٹ ارب پتی دوست کون ہیں؟
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے جواب میں مغربی ریاستوں نے روس کی معیشت اور صدر ولادیمیر پوٹن کے اندرونی حلقے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
تصویر: Christian Charisius/dpa/picture alliance
ایگور سیشین
سیشین روس کے سابق نائب وزیر اعظم اور سرکاری تیل کمپنی روزنیفٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر ہیں۔ یورپی یونین کی پابندیوں کی دستاویز میں انہیں پوٹن کے "قریب ترین مشیروں اور ان کے ذاتی دوست" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیشین روس میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ کریمیا کے استحکام کی حمایت کرتے ہیں۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Russian Presidential Press and Information Office/TASS/picture alliance
الیکسی مورداشوف
مورداشوف نے روس میں سب سے بڑی نجی میڈیا کمپنی، نیشنل میڈیا گروپ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ میڈیا ہاؤس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی ریاستی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس الزام کا جواب دیتے ہوئے اس ارب پتی کا کہنا تھا کہ "موجودہ جغرافیائی سیاسی تناؤ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔'' مورداشوف نے جنگ کو ''دو برادرانہ عوام کا المیہ'' قرار دیا۔
تصویر: Tass Zhukov/TASS/dpa/picture-alliance
علیشیر عثمانوف
ازبکستان میں پیدا ہونے والے عثمانوف دھاتوں اور ٹیلی کام کے ٹائیکون ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق عثمانوف پوٹن کے پسندیدہ اولیگارکس یا طبقہؑ امراء میں سے ایک ہیں۔ یورپی یونین نے الزام لگایا کہ اس ارب پتی نے "صدر پوٹن کا بھر پور دفاع کیا ہے اور ان کے کاروباری مسائل حل کیے ہیں۔" امریکہ اور برطانیہ نے بھی عثمانوف کو اپنی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Kremlin/Sputnik/REUTERS
میخائل فریڈمین اور ایون
یورپی یونین کے بیان میں فریڈمین کو "ایک اعلیٰ روسی سرمایہ کار اور پوٹن کے اندرونی حلقے کا سہولت کار قرار دیا گیا ہے۔" خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فریڈمین اور ان کے قریبی ساتھی پیوٹر ایون نے تیل، بینکنگ اور ریٹیل سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایون ان دولت مند روسی تاجروں میں سے ایک ہے جو کریملن میں پوٹن سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں۔
تصویر: Mikhail Metzel/ITAR-TASS/imago
بورس اور ایگور روٹنبرگ
روٹنبرگ کا خاندان پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بورس ایس ایم پی بینک کے شریک مالک ہیں، جو توانائی کی فرم گیز پروم سے منسلک ہے۔ ان کے بڑے بھائی آرکیڈی، جو پہلے ہی یورپی یونین اور امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں، پوٹن کے ساتھ نوجوانی سے جوڈو کی مشق کر رہے ہیں۔ بورس اور ایگور روٹنبرگ کو برطانیہ اور امریکہ نے بھی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Sergey Dolzhenko/epa/dpa/picture-alliance
گیناڈی ٹمچینکو
ٹمچینکو بینک روسیا کے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز کے مطابق یہ بینک روسی فیڈریشن کے سینئر حکام کا ذاتی بینک سمجھا جاتا ہے۔ بینک نے ان ٹیلی ویژن اسٹیشنوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی روسی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ بینک روسیا نے کریمیا میں اپنی شاخیں بھی کھولی ہیں۔ اور یہ بینک کریمیا کے غیر قانونی الحاق کی حمایت کرتا ہے
تصویر: Sergei Karpukhin/AFP/Getty Images
ضبط شدہ کشتیاں
نئی پابندیوں میں پوٹن کے قریبی دوستوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں بھی روس کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی کئی لگژری کشتیاں پکڑی گئی ہیں۔ سیشین، عثمانوف اور ٹمچینکو ان ارب پتیوں میں شامل تھے جن کی کشتیاں ضبط کی گئی تھیں۔ مونیر غیدی (ب ج، ع ح)