روسی طیارہ دھماکا خیز مواد سے تباہ ہوا، ماہرین کا خدشہ
5 نومبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے کے مطابق امریکی اور یورپی سیکورٹی ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ مصری علاقے سینائی میں روسی طیارے کی تباہی میں مقامی جنگجوؤں کا کردار ہو سکتا ہے۔ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش کی طرف سے جہاز میں نصب کیے گئے بم کا دھماکا ممکنہ طور پر اس کی تباہی کا سبب ہو سکتا ہے۔
ہفتے کے دن سینائی میں اس حادثے کے نتیجے میں 224 افراد مارے گئے تھے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ وہ ابھی تک کسی حتمی رائے پر نہیں پہنچے لیکن ایسے شواہد ملے ہیں کہ ایئر بس A321 دھماکے کا شکار ہوا تاہم یہ دھماکا کس نوعیت کا تھا، اس بارے میں تفتیشی عمل جاری ہے۔
ادھر مصری حکام کے ذرائع کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ میٹروجیٹ ایئر بس ہوا میں ہی تباہ ہوا لیکن اس کی وجہ کیا بنی یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تحقیقاتی عمل جاری ہے کہ آیا یہ دھماکا ایندھن کی وجہ سے ہوا یا انجن فیل ہونے کے سبب یا پھر دھماکا خیز مواد سے۔
ایک مصری عہدیدار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’ایسا یقین کیا جا رہا ہے کہ یہ طیارہ دھماکے کہ وجہ سے ہوا میں ہی تباہ ہوا۔ لیکن یہ دھماکا کیوں ہوا، یہ واضح نہیں ہے۔ ملبے اور کریشن کے مقام پر موجود ریت کا سائنسی تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ آیا یہ دھماکا بم کی وجہ سے ہوا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’کریش سائٹ پر تحقیقاتی عمل جاری ہے۔ یوں ہمیں بہتر طور معلوم ہو سکے گا کہ یہ دھماکا کیوں ہوا۔‘‘
ادھر مصری شورش زدہ علاقے سینائی میں سرگرم داعش کے مقامی جنگجوؤں نے اپنے اس دعوے کو دہرایا ہے کہ اِس روسی طیارے کی تباہی کے پیچھے اسی کے جنگجوؤں کا ہاتھ ہے۔ بدھ کے دن جاری کردہ ایک نئے بیان میں اس شدت پسند تنظیم نے کہا کہ وہ جلد ہی معلومات عام کر دیں گے کہ یہ طیارہ کیسے تباہ کیا گیا۔ تاہم مصری حکام نے اپنے ملک میں داعش کے فعال ہونے کو مسترد کرتے ہوئے ان جنگجوؤں کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
سیکورٹی اہلکاروں اور تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ سینائی میں فعال جنگجوؤں کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ تیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والے کسی طیارے کو راکٹ یا بم حملے کا نشانہ بنا سکیں۔ دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس طیارے کی تباہی کی وجوہات جاننے کے لیے مکمل تحقیقاتی عمل کے بعد ہی کوئی بیان جاری کیا جانا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تناظر میں کسی امکان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔