1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی علاقے کُرسک میں شمالی کوریا کے تیس فوجی مارے گئے، کییف

16 دسمبر 2024

یوکرین کی طرف سے پیر کو ایک بیان میں کہا گیا کہ شمالی کوریا کی یونٹس جو روس کے لیے لڑ رہی ہیں، کے کم از کم 30 فوجی گزشتہ ویک اینڈ پر روس کے علاقے کُرسک میں جنگ کے محاذ پر ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔

روس کا سرحدی علاقہ کُرسک
روس کا سرحدی علاقہ کُرسکتصویر: Russian Defense Ministry/dpa/picture alliance

یوکرینی فوج کی جاسوس ایجنسی کی طرف سے شمالی کوریائی فوجیوں کے نقصان کے بارے میں یہ بیان صدر وولودیمیر زیلنسکی کی طرف سے ہفتے کے روز  دیے گئے اُس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ روس پہلی بار مغربی روسی علاقے کُرسک میں شمالی کوریا کے فوجیوں کو بڑی تعداد میں استعمال کررہا ہے۔ یہ وہ  روسی علاقہ ہے جہاں یوکرین نے اگست میں سرحد پار سے دراندازی شروع کی تھی۔

کییف کا اولین دعویٰ

یوکرین کی جانب سے پہلی بار ایسا بیان سامنے آیا ہے جس میں کییف نے ایک بڑے پیمانے پر شمالی کوریائی فوج کے نقصان کے دعوے کی تفصیلات بیان کیں۔ اس بیان میں کہا گیا کہ روس کی طرف سے جنگ کے محاذ پر استعمال کیے جانے والے شمالی کوریائی فوجیوں کی ہلاکتیں روسی علاقے کُرسک کے پلیخؤو، ووروزہبا اور مارٹینوکا کے دیہات کے آس پاس ہوئیں۔ تاہم کییف کی طرف سے ان ہلاکتوں کا کوئی ثبوت نہیں فراہم کیا۔

شمالی کوریائی فوجی روس کی طرف سے لڑنے کے لیے تعینات؟

01:55

This browser does not support the video element.

روسی فوجی مداخلت کے ہزار دن: 2025ء فیصلہ کن ہو گا، زیلنسکی

شمالی کوریائی باشندوں کی ہلاکتوں کی تصدیق آزادانہ ذرائع سے بھی نہیں ہو سکی ہے۔

کریملن کا رد عمل

اُدھر کریملن نے مذکورہ یوکرینی دعوے سے متعلق روسی وزارت دفاع سے کیے گئے ایک سوال کا حوالہ دیتے ہوئے  تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ روس نے شمالی کوریائی فوجیوں کی موجودگی کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے۔

کرسک کے علاقے میں شمالی کوریائی افواج سب سے پہلے اکتوبر میں داخل ہوئی تھیںتصویر: Rusian Defense Ministry Press Service/AP/dpa/picture allaince

جبکہ پیونگ یانگ نے ابتدائی طور پر اپنے فوجیوں کی روس میں تعیناتی کی خبرکو  ''جعلی خبر‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا لیکن ایک شمالی کوریائی عہدیدار نے کہا ہے کہ ایسی کوئی بھی تعیناتی قانونی ہوگی۔

دریں اثناء یوکرینی ایجنسی نے تحریر کیا کہ،''فوجیوں کے نقصان کے سبب حملہ آور گروہوں نے نئی بھرتی شروع کر دی ہے۔ خاص طور سے شمالی کوریائی فوج کے  94 ویں بریگیڈ کے لیے علیحدہ سے فوجی بھرتیاں کی جا رہی ہیں جو ، کرُسک کے علاقے میں فعال جنگی کارروائیوں کو جاری رکھیں گے۔

یوکرین: ملک بھر میں فضائی حملے کا الرٹ جاری

شمالی کوریائی فوجی کُرسک کب پہنچے؟

کییف کی طرف سے کہا گیا تھا کہ شمالی کوریائی افواج سب سے پہلے اکتوبر میں کرسک کے علاقے میں داخل ہوئی تھیں۔ بعد ازاں وہاں سے غیر متعینہ  جھڑپوں کی اطلاع ملی۔ اندازوں کے مطابق اس روسی علاقے میں کُل 11,000 شمالی کوریائی باشندے پہنچائے گئے ہیں۔

سزا یافتہ مجرم اب یوکرینی فوج کا حصہ

04:45

This browser does not support the video element.

یوکرین کا قریب پانچواں حصہ ماسکو کے زیر قبضہ ہے۔ جبکہ یوکرینی فورسز نے روسی علاقے کُرسک کا بڑا حصہ قبضے میں لے رکھا ہے، جسے وہ روس کے ساتھ امن مذاکرات میں سودے بازی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے یوکرینی فورسز اس روسی علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

یورپی ممالک کے دفاعی اخراجات اب کہیں زیادہ، آئی آئی ایس ایس

اندازوں کے مطابق اس روسی علاقے میں کُل 11,000 شمالی کوریائی باشندے پہنچائے گئے ہیں تصویر: Russian Defense Ministry Press Service/AP/picture alliance

نیٹو کے سربراہ کی یوکرینی صدر سے ملاقات

نیٹو کے سربراہ مارک روٹے بدھ کو یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور کئی یورپی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اس ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ کییف کے حامی ممالک، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے یوکرین کا ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

 نیٹو کے ایک اہلکار نے پیر کو بتایا،'' مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل بدھ کو صدر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے۔ یورپی حکام کا کہنا ہے کہ جن رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے ان میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، جرمن چانسلر اولاف شولس، پولش رہنما ڈونلڈ ٹسک اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر شامل ہیں۔

نیٹو کُرسک میں یوکرینی عسکری کارروائیوں کا حامی

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہورہی ہے جب یوکرین کے یورپی اتحادیوں نے روس کے ساتھ جنگ ​​بندی کی صورت میں یوکرین میں غیر ملکی فوجیوں کو تعینات کرنے کے امکان پر بات چیت شروع کر دی ہے۔

ک م/ ع ت(روئٹرز، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں