1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی فضائی حملہ، ترک حمایت یافتہ 78 باغی ہلاک

26 اکتوبر 2020

دمشق حکومت کے اتحادی ملک روس کے ایک فضائی حملے میں کم از کم اٹھہتر ترک حمایت یافتہ باغی مارے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریننگ کیمپ پر ہونے والے اس حملے میں نوے دیگر جنگجوؤں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

Syrien Idlib Beerdigung von Kämpfern nach russischem Luftangriff
تصویر: Mohammed Al-Rifaia/AFP

خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے حالات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق روسی جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں شام کے شمال مغرب میں کم از کم اٹھہتر جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔

روسی جنگی طیاروں نے فیلق الشام نامی گروہ کے ایک ٹریننگ کیمپ کو نشانہ بنایا، جہاں دیگر نوے جنگجووں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ جس ٹریننگ کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے، وہ شامی مسلح اپوزیشن کا ادلب میں ایک مرکزی کیمپ ہے۔

قبل ازیں ہلاکتوں کی تعداد تقریبا پچاس بتائی گئی تھی اور زخمیوں کی تعداد بھی تقریبا اتنی ہی بتائی گئی تھی۔ سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ شام میں باغی گروہ کے لیے اس حملے کو ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ ادلب صوبے کا ایک حصہ شامی مسلح اپوزیشن کا آخری بڑا ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ سن دو ہزار چودہ میں تشکیل پانے والے انیس سنی باغیوں کے گروہ فیلق الشام کے کنٹرول میں ہے اور اس مسلح گروہ کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

شامی حالات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم کے ایک ترجمان یوسف حمود کے مطابق متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ جبل الدیولہ نامی علاقے میں ٹریننگ کیمپ کے سرکردہ لیڈر بھی مارے گئے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے ابھی کسی کا نام سامنے نہیں آیا ہے۔

یوسف حمود کے مطابق یہ فضائی حملے صدر بشارالاسد کے حمایتی روس کے طیاروں نے کیے ہیں۔ دوسری جانب روسی فوج کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

روس اور ترکی کی کوششوں سے رواں برس کے آغاز میں ادلب میں فائربندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد حکومتی فوجی کارروائیوں کو روکنا تھا کیوں کہ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے تھے۔ تاہم اس امن معاہدے کی وقفے وقفے سے خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔

ترکی شروع سے ہی شام میں سنی باغی گروہوں کی حمایت کرتا آیا ہے جبکہ روس نے ادلب میں مبصرین کی تعیناتی کا مطالبہ کر رکھا تھا تاکہ باغیوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس ٹریننگ کیمپ میں آئندہ چند روز میں ایک تقریب کا انعقاد ہونے والا تھا، جس میں نئے تربیت یافتہ ایک سو پچاس جنگجوؤں کو اسناد دی جانا تھیں۔

یہ بھی پڑھیے:مشرق وسطیٰ میں طاقت کی جنگ کا فاتح ایران؟

صوبہ ادلب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک حصے پر حکومتی فورسز کا کنٹرول ہے جبکہ دوسرے حصے پر باغی قابض ہیں۔ شام میں سن دو ہزار گیارہ سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں ایران اور روس صدر بشار الاسد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ روس اور ایران کی مدد سے دمشق حکومت ملک کے زیادہ تر حصوں پر اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کر چکی ہے لیکن ترک سرحد کا قریبی حصہ اب بھی باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔

ترک حکومت نے بھی اس علاقے میں اپنے ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں، جن کا مقصد حکومتی آپریشن کے نتیجے میں مہاجرین کے سیلاب کو روکنا اور علاقے میں کرد باغیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔

شام کی نو سالہ خانہ جنگی میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ خانہ جنگی صدر اسد کے اقتدار کے خلاف شروع ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں شام کے درجنوں شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

ا ا / ع ح ( اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں