غیر ملکی خواتین کی جہادی تنظیم داعش میں شمولیت کی متعدد رپورٹیں حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں۔ اب کچھ روسی خواتین بھی اپنی بیٹیوں کی تلاش میں ہیں جنہوں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
اشتہار
تین سال قبل روسی خاتون پیتیمت اتاگایے وا کی بیٹی خاموشی سے اپنے دس ماہ کے بچے کے ہمراہ داعش میں شمولیت کے لیے روس سے شام روانہ ہو گئی تھی۔ تب سے ہی یہ خاتون اپنی بیٹی اور نواسے کو تلاش کر رہی ہیں۔ اتاگایے وا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ وہ ایک خوبصورت نوجواں خاتون تھی اور خاندان بھر میں بہترین، وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟‘‘
اتاگایے وا اور کئی دیگر خواتین جن کی بیٹیاں داعش میں شامل ہو گئیں، حکام سے ملاقات کے لیے جمع ہوئی تھیں۔ ان خواتین میں سے زیادہ تر کا تعلق چیچنیا، داغستان اور انگوشتیا سے تھا۔ ان میں سے ہر ایک کی کہانی کم و بیش ایک جیسی ہی تھی۔ یہ کہ اُن کی اچھی تعلیم یافتہ لڑکیاں خاموشی سے شام میں داعش میں موجود اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں اور برسوں سے وہیں رہ رہی ہیں۔
زیارت نامی ایک اور نوجوان لڑکی جو داغستان میں انگریزی کی معلمہ تھی، سن 2015 میں چھٹیوں پر ترکی گئی تھی۔ اس کی والدہ نے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے خوش تھیں لیکن قریب ایک ماہ بعد انہیں ایک انجان نمبر سے ایک ٹیکسٹ میسج آیا جس کا مفہوم تھا،’’ امی میں گھر واپس نہیں آ سکتی۔‘‘ کچھ ماہ بعد اس کی بیٹی زیارت نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ اس کا شوہر موصل کی جنگ میں مارا گیا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور ماں سے معافی کی خواستگار تھی۔
زیارت کی والدہ کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی کا آخری پیغام گزشتہ سال نومبر میں ملا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ مشکل میں ہے اور اگر دوبارہ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ملے تو اس کے بچوں کو تلاش کر کے حفاظت سے اپنے پاس لے جائے۔
ایک چیچین عورت جس نے اپنا نام پتیمت بتایا، کا کہنا تھا کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں اپنی بیٹی اور نواسوں سے شام کے شہر منجب میں ملنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ تب یہ شہر جہادی گروپ داعش کا گڑھ تھا۔ پتیمت نے بتایا کہ وہ لوگ برے حالات میں رہ رہے تھے لیکن میری بیٹی نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔
ماسکو کے ایک ہوٹل میں اے ایف پی سے ان خواتین کے علاوہ بھی کچھ روسی ماؤں نے بات چیت کی اور اپنی بیٹیوں کے چلے جانے کی کہانیاں بیان کیں۔ ان سب کا یہی کہنا تھا،’’ ہم رات کو سو نہیں سکتیں، اپنی بیٹیوں کے چہرے ہر وقت ہمارے سامنے رہتے ہیں۔‘‘
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔