روسی مداخلت سے شامی جنگ شدید اور طویل ہو جائے گی، باغی
21 ستمبر 2015شام میں فعال اعتدال پسند باغی شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج کو بڑا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اب ایسی اطلاعات ہیں کہ روس اپنے اتحادی اسد کو عسکری مدد فراہم کر سکتا ہے تاکہ وہ ان باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کو مربوط کر سکیں۔ امریکی حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روسی فوجی شام میں پہنچنا شروع ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے کچھ باغی رہنماؤں کے انٹرویو کیے ہیں، جن میں ان باغیوں نے کہا ہے کہ صدر اسد کے کنٹرول والے ساحلی علاقوں میں اب انہیں زیادہ مزاحمت دکھائی دے رہی ہے، جس کی وہ توقع نہیں کر رہے تھے۔ ان باغیوں نے پیش گوئی کی ہے کہ اب روسی مداخلت کے نتیجے میں ان علاقوں میں زیادہ سنگین لڑائی ہو گی۔
کچھ باغی شام میں مبینہ روسی مداخلت کو ایک موقع سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اس طرح اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ان باغیوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے زیادہ عسکری امداد مل سکے گی۔ تاہم اس پیچیدہ بحران میں ماسکو کی عسکری سرگرمیوں کی وجہ سے شام میں غیر ملکی مداخلت کے بڑھنے کے زیادہ امکانات ہو جائیں گے، جو ایک خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یوں خطے میں طاقت کے حصول کے لیے سعودی عرب اور ایران کے زیادہ فعال ہونے کا اندیشہ بھی لاحق ہے۔
شامی باغی اپنے ملک میں روسی مداخلت کو افغان جنگ میں سابقہ سوویت یونین کی ناکامی کے ماڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس مخصوص صورت حال میں روس کو قبضہ کرنے والی ایک نئی طاقت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تاہم باغیوں کے مطابق اب شامی جنگ مزید طویل ہو جائے گی۔
لاذقیہ میں باغیوں کے ایک کمانڈر ابو یوسف المہاجر نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ ہمارا اندازہ ہے کہ روس کی مداخلت کے باعث اب یہ جنگ مزید طویل ہو جائے گی۔‘‘ ابو یوسف اسی محاذ پر تعینات ہیں، جہاں روس نے ابھی حال ہی میں ایک ایئر فیلڈ میں مبینہ طور پر اپنے فوجی تعینات کیے ہیں۔‘‘ الحرار الاشام نامی ایک گروہ کے ایک جنگجو کے بقول، ’’روسی مداخلت حکومت کو بچانے کی کوشش ہے۔‘‘
امریکی حکام کے مطابق روس لاذقیہ کی ایئر فیلڈ میں بہت زیادہ طاقت جمع کر رہا ہے۔ واشنگٹن کے مطابق روس نے وہاں فائٹر جیٹ طیارے، گن شپ ہیلی کاپٹرز، آرٹلری اور پانچ سو کے قریب نیول انفنٹری تعینات کر دی ہے۔
دوسری طرف ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کے لیے فوجی مدد دراصل دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔ روس کے مطابق اگر شامی ریاست کا تشخص ختم ہوا تو اس سے علاقائی سطح پر ایک تباہی پھیل سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ دمشق حکومت کو ایران اور لبنانی جنگجو گروہ حزب اللہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ ایران نے عراقی اور افغانی ملیشیا کو بھی شام میں ملکی فوجوں کے ساتھ لڑنے کے لیے متحرک کر دیا ہے۔
ایک طرف صدر اسد کی حمایت جاری ہے تو ساتھ ہی ترکی، قطر، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک باغیوں کا کامیاب بنانے کی کوشش میں بھی ہیں۔ سن 2011 سے جاری اس بحران کے آخری سال کے دوران باغی زیادہ منظم نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پاس اسلحہ بھی جدید ہوتا جا رہا ہے اور وہ اپنی پیش قدمی میں بھی بہتر حکمت عملی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یہ باغی چاہتے ہیں کہ صدر اسد کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔