ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ترکی کی طرف سے روسی S-400 دفاعی میزائل نظام کی خرید کا امریکی سکیورٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان پینٹاگون کی تنبیہ کے ردعمل میں سامنے آیا ہے۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے روس کے ساتھ جدید میزائل نظام S-400 کی خرید کے لیے کیے گئے ایک عسکری معاہدے کا دفاع کیا ہے۔ ایردوآن کے مطابق ایس 400 میزائل شکن نظام کا امریکی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قبل ازیں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے روس اور ترکی کے مابین ہونے والے اس سودے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ واشنگٹن حکومت کے مطابق اگر انقرہ اس میزائل نظام کی خرید کے معاملے کو آگے بڑھاتا ہے تو اسے ’’سنگین نتائج‘ بھگتنا ہوں گے۔
ترکی کے جنوب مشرقی شہر دیارباقر میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ ترکی نے یہ نظام خریدا ہے، اسے کن حالات میں خریدا ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جائے گا۔‘‘
ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اپنے اس خطاب میں ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ اس معاملے کا تعلق نیٹو، ایف 35 پراجیکٹ یا امریکا کی سکیورٹی سے کوئی نہیں۔‘‘ ایردوآن کے مطابق یہ ’’مسئلہ ایس چار سو میزائل کا نہیں ہے‘‘ بلکہ ترکی کی طرف سے ’’اپنے طور پر ایکشن لینے کا ہے‘‘ خاص طور شام میں۔
انقرہ کی طرف سے روسی دفاعی میزائل نظام خریدنے کا فیصلہ اس کا اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تناؤ کا سبب بنا ہے کیونکہ واشنگٹن نے اس میزائل نظام کی نیٹو اتحادیوں کے پہلے سے زیر استعمال ہتھیاروں کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
امریکا کا خیال ہے کہ ماسکو حکومت کی طرف سے ترکی کو S-400 میزائل نظام فروخت کرنے کا مقصد اس مغربی دفاعی اتحاد کے اندر دراڑ ڈالنے کی کوشش ہے کیونکہ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب روس یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان چارلی سمرز نے جمعہ آٹھ مارچ کو متنبہ کیا تھا کہ اگرانقرہ حکومت اس معاہدے پر آگے بڑھتی ہے تو اسے ’سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہا امریکی ایف 35 جیٹ لڑاکا طیارے اور امریکی دفاعی میزائل نظام پیٹریاٹ ترکی کو فراہم کرنے کا معاملہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں امریکا نے ترکی کو یہ نظام فروخت کرنے کے 3.5 بلین ڈالرز مالیت کی ایک معاہدے کی منظوری دی تھی۔
مگر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ وہ روسی میزائل نظام خریدنے کے اپنے منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔