روسی میزائل حاصل کیے تو قطر پر حملہ کر سکتے ہیں، سعودی عرب
2 جون 2018
سعودی عرب نے دھمکی دی ہے کہ اگر قطر نے روسی فضائی دفاعی میزائل نظام S-400 حاصل کیا تو اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ یہ بات فرانسیسی اخبار لے موند نے اپنی ایک رپورٹ میں بتائی ہے۔
اشتہار
فرانسیسی اخبار لے موند نے اپنے ذرائع کے حوالے سے تبایا ہے کہ ریاض حکومت نے جمعہ یکم مئی کو فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے قطری حکومت کو میزائلوں کے حصول سے باز رہنے پر قائل کریں اور علاقائی استحکام کو برقرار کھنے میں مدد کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اخباری رپورٹ کے حوالے سے فرانسیسی صدارتی دفتر وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
سعودی عرب اور دیگر علاقائی عرب ریاستوں نے جن میں بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں، گزشتہ برس قطر پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے اس سے تعلقات منقطع کر لیے تھے کہ وہ اسلامی شدت پسند گروپوں کی مدد کر رہا ہے اور ایران کے بہت قریب ہے۔ ایران اس خطے میں سعودی عرب کا روایتی حریف ملک ہے۔
سعودی سربراہی میں قائم اس اتحاد نے قطر پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔ تاہم قطر خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتا ہے۔ علاقائی طور پر الگ تھلگ کر دیے جانے کے بعد قطر نے نئے دوست بنانے کا فیصلہ کیا جن میں روس بھی شامل ہے۔ رواں برس جنوری میں قطر کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ ماسکو سے انتہائی جدید میزائل نظام S-400 فراہم حاصل کرنے کی بات چیت خاصی آگے بڑھ چکی ہے۔
فرانسیسی اخبار لے موند کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کو لکھے گئے خط میں سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے دوحہ اور ماسکو کے درمیان اس میزائل نظام کی خریداری کی بات چیت پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور صورتحال بگڑنے کے خطرے سے آگاہ کیا ہے۔
اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اس دفاعی نظام کو ختم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کے لیے تیار ہو گا، جن میں فوجی ایکشن بھی شامل ہے۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔