روسی وزیر اعظم پوتن امریکا اور نیٹو پر برس پڑے
27 فروری 2012ماسکووسکی نووستی نامی اخبار میں شائع کیا گیا یہ طویل مضمون دراصل قسط وار انداز میں قارعین تک پہنچ رہا ہے۔ روسی وزیر اعظم ولادی میر پوتن نے لکھا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے تناظر میں اُس پر حملے کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باعث روس چوکنا ہوگیا تھا۔ ان کے بقول عالمی قوتیں جو تہران کو عسکری مقاصد کے لیے جوہری طاقت کے حصول سے روکنا چاہتی ہیں انہیں پر امن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا ایرانی حق تسلیم کرنا چاہیے۔ اس مضمون میں انہوں نے مغربی اور عرب ممالک کو شام میں فوجی مداخلت سے بھی خبردار کیا ہے۔ روسی رہنما نے واشنگٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس اور اس کے اطراف واقع ممالک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور امریکہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی مداخلت سے عالمی سلامتی خطرے میں پڑ رہی ہے۔ ’’ میں امید کرتا ہوں کہ امریکا اور دیگر ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کے بغیر شام میں عسکری محاذ کھولنے کی تیاری نہیں کریں گے۔‘‘ پوتن نے واضح کیا کہ روس اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے شام میں عسکری مداخلت کا راستہ روکتا رہے گا۔ ’’کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اقوام متحدہ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے خاص طور پر جب بات کسی خودمختار ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی ہو‘‘۔
ولادی میر پوتن نے اس انداز میں امریکا مخالف رویہ 2000ء اور 2008ء کی مدت صدارت کے دوران بھی اپنایا تھا۔ ان کی تیسری مدت صدارت کے خلاف روس میں وسیع پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ پوتن اس کے پیچھے امریکا کوکارفرما ٹہراتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ امریکا کی جانب سے روس کے لیے اہم خطوں اور روسی انتخابات میں سیاسی انجینیئرنگ (مداخلت) اس کی وجوہات ہیں۔ پوتن کا کہنا ہے کہ سابق سوویت ریاستوں اور خود روس کے اندر امریکا سیاسی مداخلت کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نیٹو کو جنگ شروع کرنا چاہتا ہے اور امریکا نیٹو ممالک کی سلامتی کے لیے دیگر ممالک کو قربان کر رہا ہے۔ ’’ انسانیت کی فلاح کے دعوے پر مسلح تنازعات کا سلسلہ ملکی خودمختاری کے صدیوں پرانے اصول کو پامال کر رہا ہے۔‘‘ روسی وزیر اعظم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نیٹو نے لیبیا میں اپنا ایجنڈہ ملسط کرنے کے لیے انسانیت کی خدمت کی آڑ لی اور طاقت کا استعمال کیا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق