روسی وزیر اعظم پوتن پارٹی کی جانب سے باضابطہ صدارتی امیدوار نامزد
27 نومبر 2011یہ بات انہوں نے آج اتوار کو اپنی جماعت یونائیٹڈ رشیا پارٹی کی کانگرس میں کہی، جہاں انہیں آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا۔
روسی وزیر اعظم نے کہا کہ مغربی طاقتیں غیر سرکاری تنظیموں کی مدد کی آڑ میں عوامی آراء کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر انہیں چاہیے کہ وہ اس ضمن میں رقم ضائع نہ کریں۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے تمام غیر ملکی شراکت داروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ روس ایک جمہوری ملک اور قابل اعتماد اور قابل پیش گوئی ساتھی ہے، جس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
وزیر اعظم ولادیمیر پوتن اور صدر دیمتری میدویدیف نے 24 ستمبر کو ایک پارٹی اجلاس میں اپنے عہدے تبدیل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے پر روسی عوام میں ملے جلے جذبات کا اظہار کیا گیا تھا۔
روسی عوام میں یہ خدشات پیدا ہو چکے ہیں کہ ولادیمیر پوتن کے ایک بار پھر صدر بننے سے دنیا میں تیل اور گیس پیدا کرنے والے اس اہم ملک کی معیشت پر جمود طاری ہو جائے گا۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ روس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بند کمروں میں کیا جاتا ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سن 2000 سے 2008 تک صدر رہنے والے ولادیمیر پوتن اپنی مقبولیت میں کمی کے باوجود ایک بار پھر صدارتی انتخابات جیت جائیں گے۔ تاہم ان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان کی جماعت چار دسمبر کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت تو برقرار رکھ سکتی ہے مگر وہ ساڑھے چار سو اراکین پر مشتمل ایوان زیریں یا دومہ میں شاید 262 سے زیادہ نشستیں نہ جیت سکے۔
ولادیمیر پوتن پہلے بھی دو بار روس کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے 31 دسمبر 1999ء کو عبوری مدت کے صدر کی حیثیت سے اس وقت پہلی بار قیادت کا یہ اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا جب سابق صدر بورس یلسن نے اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد وہ 2000ء اور 2004ء کے صدارتی انتخاب میں ملک کے صدر چنے گئے۔
روسی آئین کے مطابق وہ 2008ء میں مسلسل تیسری بار صدارت کے اہل نہیں رہے تھے، جس کے سبب انہوں نے اپنی جماعت ہی کے دیمیتری میدویدیف کو اپنا پیشرو قرار دیا تھا۔
یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر وہ تیسری مرتبہ صدر منتخب ہو کر آ گئے تو 2024ء تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ