روسی ’ہائبرڈ وار‘ کا جواب دیا جائے گا، انگیلا میرکل
15 ستمبر 2018
میرکل نے کہا ہے کہ برلن حکومت اپنی فوج کی سائبر صلاحیتوں میں بہتری پیدا کر رہی ہے تاکہ یورپ کی مشرقی سرحدوں پر تعینات نیٹو کی افواج کے خلاف روسی ہائبرڈ جنگی حربوں کا جواب دیا جا سکے۔ اس مشن میں جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے دورہ لیتھوانیا کے موقع پر کہا ہے کہ برلن حکومت اپنی عسکری صلاحتیوں میں بہتری لا رہی ہے تاکہ تمام محاذوں پر دفاعی اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔ جمعے کے دن لیتھوانیا میں نیٹو مشن کے تحت تعینات جرمن فوجی دستوں سے خطاب میں میرکل نے کہا کہ روسی فوج کی طرف سے ’ہائبرڈ وار فیئرز‘ کا مقابلہ کیا جائے گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا تھا کہ روس سے متصل یورپ کی مشرقی سرحدوں پر نیٹو افواج کو روس کی طرف سے مختلف قسم کے جنگی حربوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے ان حربوں کو ہائبرڈ وار فیئر کا نام دیا، جو ایک ایسی جنگی حکمت ہوتی ہے، جس کے تحت دشمن نہ صرف روایتی جنگی حالات پیدا کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی سیاسی وار فیئر اور سائبر حملے بھی کرتا ہے۔ میرکل نے کہا کہ ایسی بات نہیں کہ مغربی ممالک ان عسکری حربوں سے واقف نہیں ہیں۔
مغربی عسکری دفاعی نیٹو کے رکن ممالک روس پر الزام کرتے ہیں کہ ماسکو حکومت مشرقی سرحدوں پر تعینات اس کے فوجیوں کے خلاف براہ راست عسکری تنازعہ پیدا کیے بغیر ہی ہائبرڈ جنگی حربے استعمال کر رہا ہے، جن میں پراپیگنڈا، سائبر وار فیئر اور متعدد ممالک کی حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف روسی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ کریملن کا اصرار ہے کہ امریکی سرپرستی میں قائم یہ عسکری اتحاد دراصل خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ گزشتہ برس ہی برلن حکومت نے نیٹو مشن کے تحت لیتھوانیا میں پانچ سو فوجیوں کو تعینات کیا تھا، جس کا مقصد روسی خطرات سے نمٹنا ہے۔
ان جرمن فوجیوں کی تعیناتی کے فوری بعد ہی ان پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے تھے کہ وہ ریپ کے مرتکب ہوئے۔ دوسری طرف میڈیا میں ایسی خبریں بھی عام ہوئی تھیں کہ ماسکو حکومت نے نیٹو افواج کے سمارٹ فونز کو ہیک کرنے کی کوشش کی۔
یوکرائن کے علاقے کریمیا پر روسی حملے اور بعد ازاں اسے روس کا حصہ بنانے پر کئی یورپی ممالک کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ روس ان پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ ممالک نیٹو کے ساتھ مل کر اپنے دفاع کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر لیتھوانیا کے علاوہ لیٹویا، ایسٹونیا اور پولینڈ میں بھی نیٹو کی ایک ہزار بٹالینز تعینات ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
کریمیا کا بحران: روسی اقدام اور اُس کے نتائج
روس اور کریمیا کی ماسکو نواز حکومت نے بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اس جزیرہ نما کو وفاق روس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس روسی اقدام کو بھی برسلز میں منعقدہ یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس اور یوکرائن
یورپی یونین کی برسلز میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں روس کے خلاف مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعہ اکیس مارچ کو ختم ہونے والی اس دو روزہ سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین نے کریمیا میں روسی اقدام کے خلاف ایک تعزیری اقدام کے طور پر روس کے ساتھ اپنی اگلی سربراہ کانفرنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
تصویر: REUTERS
عزائم پر برق رفتاری سے عملدرآمد
روس نے بحیرہء اسود کے جزیرہ نما کریمیا پر اپنی عسکری قوت بڑھانا شروع کر دی ہے۔ بدھ اُنیس مارچ کو روس نواز قوتوں نے یوکرائن کے کئی ایک فوجی اڈوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، جیسے کہ مثلاً بندرگاہی شہر سیواستوپول میں، جہاں یہ تصویر اتاری گئی۔
تصویر: Reuters
آئین سے ہم آہنگ اقدام
ایک جانب روسی فوجی پیریوالنوئے میں واقع پوکرائن کے فوجی اڈے میں داخل ہو رہے تھے، دوسری طرف روسی آئینی عدالت کریمیا کو وفاق روس کا حصہ بنانے کے معاہدے کو آئین سے ہم آہنگ قرار دے رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس معاہدے پر اٹھارہ مارچ منگل کو ہی اپنے دستخط ثبت کر دیے تھے۔ روسی پارلیمان کے دونوں ایوان بھی اس کی توثیق کر چکے ہیں۔
تصویر: Dan Kitwood/Getty Images
خاموش پسپائی
خبر رساں اداروں کے مطابق یوکرائن کے ایک میجر نے یہ بتایا کہ ’روسی فوجی یہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے ہم سے یہ اڈہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا‘۔ اس تصویر میں ایک فوجی افسر نوووسیرنے کے اڈے سے جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یوکرائن نے کریمیا سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فوج کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
تصویر: FILIPPO MONTEFORTE/AFP/Getty Images
شاندار ہال میں متاثر کن آمد
اٹھارہ مارچ کو ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے شاندار گیورگ ہال میں ایوانِ زیریں دُوما کے نمائندوں اور روسی وفاق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کریمیا کو روس کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیا اور مغربی دنیا پر الزام عائد کیا کہ اُس نے یوکرائن میں ’ایک سرخ لائن‘ عبور کی ہے۔
تصویر: Reuters
پہلے بیانات اور فوراً بعد عملی اقدامات
پوٹن کے بیانات کے فوراً بعد عملی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ کریملن میں ایک شاندار تقریب میں روس میں کریمیا کی شمولیت کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تصویر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ساتھ کریمیا کی ماسکو نواز حکومت کے سربراہ سیرگئی آکسیونوف (انتہائی بائیں جانب)، کریمیا کی پارلیمان کے ترجمان ولادیمیر کونسٹانٹینوف (بائیں سے دوسرے) اور سیواستوپول کے میئر الیکسی شالی (دائیں) نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
امیدیں اور توقعات
کریمیا میں ایک ساتھ مایوسی بھی ہے اور جشن بھی۔ جہاں یوکرائن کے فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ اس جزیرہ نما سے رخصت ہو رہے ہیں، وہاں کریمیا کے دیگر باسی روسی کے ساتھ الحاق کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سیواستوپول میں جمع ایک روس نواز شہری نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی‘۔
تصویر: Reuters
الحاق کی حمایت میں تالیاں
کریمیا میں سینکڑوں افراد نے کریمیا کو روس کا حصہ بنانے سے متعلق پوٹن کی تقریر کو سنا اور خوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کے بعد ہونے والے آتش بازی کے مظاہرے کو دیکھا۔ اس تصویر میں لوگ کریمیا کے شہر زیمفروپول میں بڑی اسکرین پر یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اتوار سولہ مارچ کو ہونے والے ریفرنڈم میں کریمیا کے 97 فیصد شہریوں نے روس کے ساتھ الحق کے حق میں رائے دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قوم کی رَگ پر ہاتھ
پوٹن نے کریمیا میں پیش قدمی کرتے ہوئے غالباً روسی عوام کے ایک حصے کے دلی خواہش پوری کر دی ہے۔ قوم کے نام پوٹن کے خطاب کے بعد متعدد شہروں میں اُن کے لاکھوں حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ماسکو میں اتری اس تصویر میں بھی پوٹن کے حامی جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DMITRY SEREBRYAKOV/AFP/Getty Images
’میدان‘ کے سرگرم کارکن
یوکرائن کے دارالحکومت کییف کا مرکزی علاقہ ’میدان‘ گزشتہ کئی مہینوں سے صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا مرکز بنا رہا۔ اُس روز بھی، جس روز کریمیا کی یوکرائن سے علیحدگی یقینی نظر آ رہی تھی، اس مقام پر لوگ جمع تھے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
یورپی یونین میں شمولیت کی جانب ایک قدم
’میدان‘ میں چند مہینے پہلے کا ایک منظر، جس میں ’یورپی مستقبل کے لیے‘ نامی تحریک کے کارکن یورپی یونین میں یوکرائن کی شمولیت کے موضوع پر ایک ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اب یہ منزل قریب آ گئی ہے۔ برسلز منعقدہ یورپی یونین سربراہ کانفرنس کے موقع پر یونین اور یوکرائن کے درمیان قریبی تعاون کے علامتی اعتبار سے ایک نہایت اہم سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔