روسی ہیکرز گروپ نے امریکی سروسز کو نشانہ بنایا: امریکا
23 اکتوبر 2020
امریکا کا کہنا ہے کہ روسی ہیکرز نے سائیبر حملے کے ذریعے اس کی دو ریاستوں اور ایک مقامی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ وارننگ ایسے وقت آئی ہے جب صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کے لیے دو ہفتوں سے بھی کم وقت بچا ہے۔
اشتہار
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روسی حمایت یافتہ ہیکرز گروپ نے کم از کم اس کی دو ریاستوں اور مقامی سطح کی انتظامیہ کا ڈیٹا چوری کر لیا ہے۔ امریکی حکام پہلے سے ہی صدارتی انتخابات میں روس کی جانب سے مداخلت کے اندیشوں اور خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور یہ وارننگ ایک ایسے وقت آئی ہے جب انتخابات کے لیے دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
امریکا یہ بات پہلے ہی تسلیم کرچکا ہے کہ روس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کی ای میلز ہیک کرکے 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی تھی۔ اس برس بھی امریکی حکام یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روس پھر سے انتخابات میں صدر ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن کے خلاف کوششیں میں لگا ہوا ہے۔
اشتہار
امریکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش
امریکا کی وفاقی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی، سائیبر اور انفرا اسٹرکچر سکیورٹی ایجنسیز نے مشترکہ طور پر ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کے 'بیرسرک بیئرز' اور 'ڈریگن فلائی' سمیت متعدد ہیکرز کے گروپ نے گزشتہ ستمبر سے ہی امریکی اہداف کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے اور کئی بار وہ سائبر حملے کر چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
ایجنسیوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق اب تک ان ہیکرز نے دانستہ طور پر، ''محکمہ شہری ہوابازی، شعبہ تعلیم، انتخابی عمل یا پھر سرکاری کاموں میں خلل نہیں ڈالا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں امریکی پالیسیوں اور اس کی سرگرمیوں پر اثرا انداز ہونے کے لیے رسائی حاصل کرنے کے مقصد سے مختلف امکانات تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔''
خفیہ ایجنسیوں نے اس مشترکہ بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کن ریاستوں اور مقامی حکومتوں کو ہیکرز نے نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی معلومات کی حد تک اب تک کوئی انتخابی یا حکومتی سرگرمی اس سے نہ تو متاثر ہوئی ہے اور نہ ہی الیکشن سے متعلق کسی ڈیٹا کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہیکرز کے لیے ووٹوں کے اعداد و شمار میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کرنا انتہائی دشوار کام ہے۔ سائیبر اور انفرا اسٹرکچر سکیورٹی ایجنسیز کے سربراہ کرس کریب کا کہنا تھا کہ انہیں ایسی کسی سرگرمی کا علم نہیں ہے جس سے، ''انہیں ووٹ کے قریب بھی آنے کی اجازت مل سکتی ہو۔''
امریکی خفیہ اداروں نے جن روسی ہیکرز گروپ کا ذکر کیا ہے وہ 2011 سے ہی سرگرم ہیں اور یورپ و امریکا کے محکمہ دفاع، توانائی اور شہری ہوابازی جیسی کمپنیوں میں جاسوسی کرنے جیسی حرکتوں میں ملوث رہے ہیں۔
ایک روز قبل ہی امریکی خفیہ اداروں کے حکام نے کہا تھا کہ روس اور ایران نے تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل عوامی
رائے پر اثر انداز ہونے کے مقصد سے رائے دہندگان سے متعلق معلومات حاصل کر لی ہیں۔ ان کے مطابق اس کا مقصد ووٹروں کو ڈرانا دھمکانا اور انتخابی نظام کے تئیں لوگوں میں بے اعتمادی پیدا کرنا ہے۔
امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کا کہنا تھا کہ امریکی رائے دہندگان کو اپنی ووٹ کی طاقت میں پورا یقین رکھنا چاہیے اور کسی بھی ایسے دعوے کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے جس میں امریکی انتخابی نظام کو کم تر دکھانے کی کوشش کی گئی ہو۔