روسی یوکرینی جنگ ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے، جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ
24 اپریل 2022
معروف جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ کے مطابق یوکرین پر فوجی حملے کے بعد سے جاری روسی یوکرینی جنگ دراصل ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے لیے صرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی ’آمریت‘ کو قصور وار قرار دینا غلط ہو گا۔
اشتہار
اس وقت 68 سالہ ولہیلم شمٹ جرمنی میں عہد حاضر کے ایک معروف فلسفی ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی کامیاب مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے جرمن اخبار 'آؤگسبُرگر الگمائنن‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یوکرین کی جنگ کے لیے صرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے 'آمرانہ‘ طرز حکومت کو ہی واحد وجہ سمجھنا غلطی ہو گا۔
اس انٹرویو میں ولہیلم شمٹ نے کہا کہ روسی یوکرینی جنگ دراصل دو ثقافتوں اور دو متضاد رویوں کی جنگ ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ اس بارے میں کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں مگر یہ بات کسی بھی شبے سے بالاتر ہے کہ روس میں صدر پوٹن کی حمایت کرنے والے شہریوں کی تعداد کم بھی نہیں ہے۔
روسی آرتھوڈوکس کلیسا کی طرف سے واضح حمایت
ولہیلم شمٹ کے بقول یوکرین کی جنگ کے بارے میں روس میں داخلی سطح پر پائی جانے والی قوم پسندانہ حمایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ روسی آرتھوڈوکس کلیسا صدر پوٹن کی سیاست کا واضح طور پر حامی ہے۔ انہوں نے کہا، ''آپ ذرا یہ سوچیے کہ مسیحی اس قتل عام کو اچھا قرار دے رہے ہیں، اس کی تعریف کر رہے ہیں۔‘‘
دور حاضر کے سرکردہ جرمن فلسفیوں میں شمار ہونے والے ولہیلم شمٹ نے کہا کہ روسی عوام، سیاست اور معاشرے کا ایک بڑا حصہ واضح طور پر چاہتا ہے کہ وہ واپس ماضی کی طرف لوٹ جائے اور موجودہ روس ایک بار پھر وہی شاہی سلطنت بن جائے، جیسی وہ کبھی تھا۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ جو کسی سلطنت کا حصہ ہوتی ہیں: طاقت کی سیاست اور دیگر ممالک پر قبضے کی خواہش سمیت۔‘‘
اشتہار
'ثقافتوں کی جنگ‘ کی وضاحت
ولہیلم شمٹ نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ ماضی میں 1990 کی دہائی میں بھی روس میں یہ سننے میں آیا تھا کہ یہ روس کا حق ہے کہ وہ اپنی ہمسایہ ریاستوں پر قابض ہو جائے کیونکہ ان ریاستوں کو اپنے علیحدہ اور آزادانہ وجود کو برقرار رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ شمٹ کے بقول روسی آرتھوڈوکس کلیسا گزشتہ کئی صدیوں سے ذرا سا بھی نہیں بدلا۔ اس لیے کہ یہ اس کے وجود اور عقیدے کا حصہ ہے، ''کوئی بھی ترقی یا تبدیلی ہونا ہی نہیں چاہیے۔‘‘
دوسری طرف مغربی دنیا کی ثقافت ہے، جس نے گزشتہ عشروں میں کافی ترقی کی ہے اور جو تبدیلی کے عمل سے بھی گزر چکی ہے۔ ''مغربی دنیا جس تبدیلی کے دور سے گزر چکی ہے، وہ اسے بہتر سمجھتی ہے اور جاری بھی رکھنا چاہتی ہے۔ مثلاﹰ انسانی حقوق کے احترام، شخصی آزادیوں اور جمہوریت سے جڑی ہوئی اقدار کو۔‘‘
ولہیلم شمٹ نے اخبار 'آؤگسبُرگر الگمائنن‘ کو بتایا کہ یہ اقدار اور ان کے فہم کا وہی تصادم ہے، جسے روس اور یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں بجا طور پر 'ثقافتوں کی جنگ‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کا یقین یہ ہے کہ انسان کو بہتری کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے اور تبدیلیاں وقت کے ساتھ آتی ہی رہتی ہیں۔
’’مغرب کی اس سوچ کو کلچر آف ٹائم کا نام بھی دیا جا سکتا ہے جبکہ یوکرین کی جنگ کے محرکات میں یہ سوچ شامل ہے کہ تبدیلی تو کوئی ہونا ہی نہیں چاہیے۔ اس تناظر میں بھی روسی یوکرینی جنگ کو 'ثقافتوں کی جنگ‘ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا۔‘‘
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ولہیلم شمٹ نے، جن کی گزشتہ کتاب 'وطن تلاش کیجیے‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، کہا کہ روس میں مغرب کی 'زمانی ثقافت‘ یا کلچر آف ٹائم کے بجائے 'مکانی ثقافت‘ یا کلچر آف اسپیس کی سوچ کہیں زیادہ غالب ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ روس اپنے رقبے کے لحاظ سے غیر معمولی حد تک بڑا ہے، ایک ایسا ملک جس میں کوئی بھی انسان آسانی سے گم ہو سکتا ہے۔
''اس لیے وہاں معاشرتی سطح پر فرد واحد کی وہ اہمیت اور حیثیت نہیں، جیسی مغرب میں لازمی سمجھتی جاتی ہے اور جس کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔ روس کے اتنے بڑے مکانی وجود میں کسی فرد واحد کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہوتا۔ زمان و مکان کی دو مختلف ثقافتوں کے اسی تصادم کو دیکھا جائے تو یورپ کے مشرق میں اس وقت 'ثقافتوں کی جنگ‘ ہی لڑی جا رہی ہے۔‘‘
م م / ع ا (کے این اے)
روسی قوم پرست زاروں کی واپسی کے خواہش مند
’آرتھوڈوکس عقیدہ یا موت‘ یہ ان کا نعرہ جنگ ہے۔ روس میں شاہی نظام کا حامی ایک مذہبی گروہ زاروں کے شاہی دور کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی آرتھوڈوکس کلیسا کی مدد سے۔ ماضی کے روسی بادشاہ ’زارِ روس‘ کہلاتے تھے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’سربراہ مملکت کوئی زار ہو‘
لیونڈ سیمونووچ بنیاد پرستوں کی ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ کے سربراہ ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ روسی مملکت کی سربراہی کسی زار کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعات اور مظاہروں کے ذریعے اپنی سوچ دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
کلیسا کا تعاون ضروری
لیونڈ سیمونووچ کہتے ہیں، ’’ہم بالکل ویسی ہی ایک مستحکم سلطنت کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں، جیسی روسی زاروں کے دور میں تھی۔‘‘ ان کے بقول ایسا کرنا صرف کلیسا کی مدد سے ہی ممکن ہے، ’’لادینیت اس کے لیے موزوں نہیں کیونکہ اس سے آمریت جنم لیتی ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
زار خاندان کا قتل
سترہ جولائی 1918ء کو زار نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انقلابی رہنما لینن کے کہنے پر انہیں یہ سزا دی گئی تھی۔ اس طرح روس میں تین سو سال پرانی رامانوف بادشاہت کا خاتمہ بھی ہو گیا تھا۔ زار خاندان کے قتل کے ایک سو سال پورے ہونے پر ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ نے ماسکو کے معروف اشپاسو اندرونیکوف راہب خانے کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
سیاہ لباس اور بینر اٹھائے ہوئے
’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ صرف مطلق العنان حکومت کی بحالی کا مطالبہ ہی نہیں کرتی بلکہ وہ روسی قوم پرستی کو دوبارہ زندہ کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان سیاہ لباس اور سیاہ رنگ کے جوتے پہنتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر روک موسیقی کے کسی کلب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ان افراد کے پاس صلیب جیسی مسیحی مذہبی علامات بھی ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
یادگار تصاویر سے آرائش
اس گروپ کے زیادہ تر لوگ آرائش کے لیے پرانی اور یادگار تصاویر دیواروں پر لگاتے ہیں۔ پال اس گروپ کے رکن ہیں اور ان کے کمرے کی دیواروں پر اُن تمام آرتھوڈوکس مسیحی خانقاہوں اور راہب خانوں کی تصاویر آویزاں ہیں، جن کے وہ دورے کر چکے ہیں۔ اس گروپ کے کچھ ارکان کی رائے میں معاشرتی تبدیلی کے لیے طاقت کے بل پر ایک انقلاب کی ضرورت ہے جبکہ دیگر ارکان زاروں کے شاہی دور کی واپسی کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
مقدس زار
سن 2000ء میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا نے قتل کر دیے جانے والے زار روس نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو سینٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ تاہم آرتھوڈوکس کلیسا کے پیروکاروں کی ایک مختصر تعداد نے ہی زار خاندان کے ارکان کے لیے مذہبی تقدیس کے اعلان کے بعد منعقد کردہ کلیسائی تقریب کے سلسلے میں خوشیاں منائی تھیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’آرتھوڈوکس مسیحی عقیدہ یا موت‘
روسی شہریوں کی ایک بہت بڑی اکثریت مسیحیت کے آرتھوڈوکس عقیدے کی پیروکار ہے۔ اس کے باوجود ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ اس لیے اس عقیدے کے پرچار کی کوشش کرتی ہے کہ اس کے نزدیک اس مسیحی فرقے کو مزید پھیلنا چاہیے۔