روسی یوکرینی جنگ: جرمن گھرانوں پر اربوں یورو کا اضافی بوجھ
15 اگست 2022
جرمن حکومت نے یوکرینی جنگ کے باعث ملک میں توانائی کی قلت کے پیش نظر انرجی سرچارج کی شرح کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ شرح تقریباﹰ ڈھائی سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ ہو گی جس کا مطلب عام شہریوں پر اربوں یورو کا اضافی مالی بوجھ ہو گا۔
اشتہار
جرمنی بھی چند ماہ پہلے تک یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ممالک کی طرح زیادہ تر روس سے درآمد کردہ قدرتی گیس پر انحصار کرتا تھا۔ لیکن روسی یوکرینی جنگ کے نتیجے میں ایک طرف اگر یورپ کو روسی گیس کی ترسیل متاثر ہوئی تو ساتھ ہی یورپ نے روس کو سزا دینے کے لیے ماسکو پر کئی طرح کی پابندیاں بھی لگا دیں۔
اس پس منظر میں برلن میں وفاقی جرمن حکومت گزشتہ کئی ہفتوں سے خبردار کر رہی تھی کہ آئندہ موسم سرما میں عام جرمن صارفین کو اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے لیے حل یہ نکالا گیا تھا کہ دیگر ممالک سے درآمدی گیس کی قیمتیں زیادہ رہنے اور عام صارفین کو توانائی کی بچت پر مجبور کرنے کے لیے ایک نیا انرجی سرچارج متعارف کرایا جائے گا۔
نئے توانائی ٹیکس کی شرح
برلن حکومت نے پیر پندرہ اگست کے روز اس نئے توانائی ٹیکس یا انرجی سرچارج کی شرح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس خصوصی ٹیکس کی شرح 2.419 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ ہو گی۔ لیکن اس شرح کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے کہ حکومت اس نئے مالیاتی بوجھ میں کمی کی خاطر عام شہریوں کے لیے ریلیف کا اعلان بھی کرے۔
جرمنی میں توانائی کی ترسیل کے کاروباری نیٹ ورکس کے منتظم اداروں کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ٹریڈنگ ہب یورپ کے مطابق روس سے گیس کی درآمدات میں واضح کمی کے بعد دیگر ممالک سے درآمد کردہ گیس کی قیمتوں میں کافی زیادہ اضافے کے نتائج کا سامنا اب تک ملکی انرجی کمپنیاں ہی کر رہی تھیں۔ نئے انرجی سرچارج سے ان کمپنیوں پر پڑنے والا مالی بوجھ کچھ کم ہو جائے گا۔
اشتہار
ایک عام جرمن گھرانے پر اوسطاﹰ پانچ سو یورو کا اضافی بوجھ
ٹریڈنگ ہب یورپ کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں چار افراد پر مشتمل ایک گھرانہ اوسطاﹰ سالانہ 20 ہزار کلو واٹ گھنٹہ توانائی استعمال کرتا ہے۔ اگر 2.419 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ کی شرح سے اس نئے انرجی سرچارج کو دیکھا جائے، تو ایسے کسی اوسط جرمن گھرانے پر پڑنے والا اضافی مالی بوجھ 484 یورو (تقریباﹰ 494 امریکی ڈالر) کے برابر تک ہو گا۔
لیکن یہ اندازہ بھی قانوناﹰ وصول کیے جانے والے گڈز اینڈ سروسز ٹیکسوں کے بغیر لگایا گیا ہے۔ اگر اس میں معمول کے دوسرے ٹیکس بھی شامل کر لیے جائیں تو عام جرمن گھرانوں پر اس اضافی بوجھ کی مالیت یقینی طور پر 500 یورو سے زیادہ ہی رہے گی۔
نیا انرجی سرچارج یکم اکتوبر سے نافذ العمل
جرمن حکومت نے جس نئے انرجی سرچارج کی شرح کا اعلان کیا ہے، اس کی وجہ سے ملکی صارفین مجموعی طور پر اربوں یورو کی رقوم اضافی طور پر ادا کریں گے۔ یہ نیا ٹیکس ملک بھر میں یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
وفاقی جرمن وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک نے اس بارے میں کہا، ''یہ قدم اٹھانا حکومت کے لیے کسی بھی طور پر کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن یہ اس لیے لازمی ہو گیا تھا کہ سردیوں میں گھروں کو گرم رکھنے کے ساتھ ساتھ عام گھرانوں اور ملکی معیشت کے لیے دیرپا بنیادوں پر توانائی کی ترسیل کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
رابرٹ ہابیک نے تاہم وعدہ کیا کہ اس نئے ٹیکس کے متعارف کرائے جانے کے بعد مرکزی حکومت عام صارفین کے لیے ایک اور مالیاتی ریلیف پیکج کا اعلان بھی کرے گی، تاکہ عام جرمن صارفین پر پڑنے والے اربوں یورو کے اس نئے بوجھ کو کم رکھا جا سکے۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
دنیا میں شمسی توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا رہا ہے
دنيا بھر کے شہری و ديہی علاقوں ميں ہر سطح پر شمسی توانائی کے حصول کے ليے نت نئے منصوبے ابھر رہے ہيں، جو ماحول دوست بھی ہيں اور ہر کسی کے پہنچ ميں بھی ہيں۔ اس پکچر گیلری میں ایسے ہی کچھ منصوبوں کے بارے میں جانیے۔
تصویر: Gemeinde Saerbeck/Ulrich Gunka
سورج کی شعاؤں سے پينے کے پانی کا حصول
ايتھوپيا کے ديہات ريما ميں شمسی توانائی کی مدد سے چلنے والا ايک واٹر پمپ نصب ہے۔ پانی کا کنواں آبادی سے ذرا دور ہے۔ قبل ازيں وہاں ڈيزل سے چلنے والا پمپ لگا ہوا تھا، جو اکثر خراب پڑا رہتا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہيں۔ شمی توانائی سے چلنے والا واٹر پمپ چھ ہزار افراد کو بلا رکاوٹ پانی فراہم کر رہا ہے، وہ بھی ماحول دوست انداز ميں۔
تصویر: Stiftung Solarenergie
موبائل فون چارجنگ کے ليے شمسی توانائی
مشرقی افريقہ کے زيادہ تر حصوں ميں اب بھی بجلی ميسر نہيں ہے۔ ايسے ميں شمسی توانائی کی چھوٹی چھوٹی دکانيں ابھر رہی ہيں۔ يہ منظر کينيا کے ايک چھوٹے شہر کا ہے۔ اس دکان کی چھت پر سرلر پينل نصب ہيں اور صارفين معمولی رقم دے کر اپنے موبائل فون وغيرہ چارج کر سکتے ہيں۔ يوں اپنوں کے ساتھ رابطہ، انٹرنيٹ کے ذريعے رقوم کی ادائيگی اور منڈيوں کے حال احوال کا پتا لگ جاتا ہے۔
تصویر: Solarkiosk GmbH
شمسی توانائی سے کسانوں کا بھی فائدہ
يہ وسطی امريکا کے ملک نکاراگوا کے ديہات ميرافلورس کا منظر ہے۔ يہاں زيادہ تر لوگ زراعت سے وابستہ ہيں۔ سن 2013 تک يہاں بجلی دستاب نہ تھی۔ پھر مقامی سطح پر کام کرنے والے اليکٹريشنز نے علاقے کے لگ بھگ چھ سو خاندانوں کے ليے سولر پينلز متعارف کرائے۔ نتيجتاً اب ان کسانوں کو ٹيلی وژن، فریج اور ديگر اشياء کے ليے بجلی دستياب ہے۔
تصویر: Stefan Jankowiak
شہری ترقی اور ماحول دوست طرز تعمير کی مثال
يہ جنوبی جرمن شہر فرائی برگ کی ايک کميونٹی کی تصوير ہے۔ اس رہائشی کمپليکس ميں تمام عمارات کی چھتوں پر سولر پينلز نصب ہيں اور يہاں ضرورت سے زائد بجلی پيدا ہو رہی ہے۔ يہ منصوبہ موجودہ دور ميں شہری ترقی اور ماحول دوست طرز تعمير کی ايک مثال ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Haid
مائیکرو گرڈز: ديہی علاقوں ميں ترقی کی ضمانت
بنگلہ ديش ميں ’سول شيئر‘ نامی اسٹارٹ اپ ديہی علاقوں ميں کم قيمت بجلی فراہم کرتا ہے۔ کمپنی نے کئی علاقوں ميں اس طرز کے مائیکرو گرڈز نصب کر رکھے ہيں جو مقامی سطح پر لوگوں کی ضروريات پوری کرتے ہيں۔ تمام گرڈز ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہيں يعنی جن افراد کے مکانات پر يہ گرڈز نہيں، انہيں بھی بجلی فراہم ہوتی ہے۔
تصویر: ME SOLshare Ltd.
کووڈ کے خلاف بھی شمسی توانائی موثر
يہ ہيٹی کے تبارے نامی علاقے کا ايک ہسپتال ہے۔ چھت پر نصب سولر پينلز مجموعی طور پر سات سو دس کلو واٹ بجلی پيدا کرتے ہيں۔ اس ہسپتال ميں کورونا کے مريضوں کا علاج ہوتا ہے اور بجلی کی تمام تر ضروريات شمسی توانائی سے ہی پوری ہوتی ہيں۔ ہر سال ايندھن کی قيمتوں ميں پچاس ہزار يورو کی بچت ہوتی ہے اور ماحول کو بھی کوئی نقصان نہيں پہنچتا۔
تصویر: Biohaus-Stiftung.org
پورے کے پورے گاؤں کے ليے منی گرڈ
کينيا کے تالک نامی گاؤں ميں ڈيڑھ ہزار افراد رہتے ہيں۔ يہاں سن 2015 سے شمسی نوانائی کا نظام نصب ہے، جو پورے کے پورے گاؤں کی بجلی کی ضروريات پوری کرتا ہے۔ پچاس کلو واٹ پيدا کرنے والا ايک گرڈ گاؤں کے نواح ميں نصب ہے جبکہ بيٹرياں گاؤں کے قريب لگی ہوئی ہيں۔ جارج نوبی اس پلانٹ کی ديکھ بھال کرتے ہيں۔
تصویر: Imago Images/photothek/T. Imo
ريگستان ميں بھی زندگی کی علامت
مصر کے ريگستان ميں پانی کی شديد قلت ہے۔ El-Wahat el-Bahariya کے نخلستان پر قائم يہ شمسی توانائی کا اسٹيشن پانی پمپ کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ اسی سبب وہاں چھوٹے پيمانے پر پھل، سبزياں بھی اگائے جا سکتے ہيں۔ تصوير ميں مقامی لوگ پينلز پر سے مٹی اور ريت صاف کر رہے ہيں۔
تصویر: Joerg Boethling/imago images
کوپن ہيگن کچھ ہی سال ميں ’کلائميٹ نيوٹرل‘
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہيگن کی انتظاميہ کا ہدف ہے کہ سن 2025 تک ’کلائميٹ نيوٹرل‘ ہو جائے يعنی کاربن گیسوں کے اخراج کی مجموعی شرح صفر ہو۔ شہر ميں بڑی تيزی کے ساتھ بنيادی ڈھانچا کھڑا کيا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ توانائی کے حصول کے ليے ماحول دوست تنصيبات لگائی جائيں۔
تصویر: picture alliance / Zoonar
انرجی پارک پورے ملک کے ليے ايک ماڈل
مغربی جرمنی کے اس چھوٹے سے شہر سار بيک ميں مقامی آبادی کی ضرورت سے کہيں زيادہ بجلی پيدا ہوتی ہے اور وہ بھی سورج، ہوا اور بايو ماس کے ذريعے۔ يہ انرجی پارک پورے ملک کے ليے ايک ماڈل کی حيثيت رکھتا ہے۔ حال ہی ميں امريکا کے ايک وفد نے کچھ سيکھنے کے مقصد سے علاقے کا دورہ کيا تھا۔