روسی یوکرینی جنگ کا ایک سال: قیام امن کب تک اور کیسے ممکن؟
24 فروری 2023
یوکرین پر روسی فوجی حملے کو آج جمعہ چوبیس فروری کے روز ٹھیک ایک سال ہو گیا مگر یہ جنگ ابھی تک جاری ہے۔ اس جنگ کے فریقین میں سے اب تک کوئی بھی امن مذاکرات پر آمادہ نہیں تاہم ان پر بیرونی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
اشتہار
روسی یوکرینی جنگ میں اب تک اطراف کے ہزارہا فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ شہری ہلاکتوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بنتی ہے۔ اس کے علاوہ لاتعداد شہر تباہ ہو چکے ہیں اور یہی جنگ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں افراط زر اور بھوک میں اضافے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع کی کمی کا سبب بھی بن چکی ہے۔ یہ ہے اس جنگ کے ایک سال کا میزانیہ۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ابھی تک اپنے اس عسکری ہدف میں کامیاب نہیں ہوئے، جس کے تحت وہ پورے یوکرین پر قبضہ کر لینا چاہتے تھے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ روس یوکرین کے مجموعی ریاست علاقے کے تقریباﹰ پانچویں حصے پر تو قبضہ کر ہی چکا ہے۔
عسکری حوالے سے غیر فیصلہ کن تسلسل
روس اور یوکرین کی جنگ میں صورت حال گزشتہ کئی ماہ سے ایسی ہے کہ اس میں فوجی حوالے سے کوئی بڑی یا فیصلہ کن پیش رفت نہیں ہو رہی۔ یوکرینی فوج نے گزشتہ برس اپنے ملک کے کئی علاقے روسی دستوں کے قبضے سے آزاد کرا لیے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے حالات زیادہ تر جمود کا شکار ہیں۔ روسی فوج اب یوکرین میں یا تو نئے اور بڑے مسلح حملے شروع کر رہی ہے یا پھر یوکرین کے مشرق اور جنوب کے جنگی محاذوں پر اپنے قدم مضبوط بنانے کی کوشش میں ہے۔
ان حالات میں دونوں جنگی دھڑوں میں سے کوئی بھی ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں دے رہا کہ وہ اس جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات پر آمادہ ہے۔ روس کا خیال ہے کہ طویل المدتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو وہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس کے برعکس یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی بار بار کہہ چکے ہیں کہ کییف حکومت کے دستے ماضی میں زبردستی روس میں شامل کیے گئے یوکرینی جزیرہ نما کریمیا سمیت تمام مقبوضہ علاقوے خالی کرا کر ہی چین سے بیٹھیں گے۔
جہاں تک مغربی دنیا میں یوکرین کے عسکری اور سیاسی حمایتی ممالک کا تعلق ہے، تو ان کی سوچ یہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف خود یوکرین ہی کو کرنا چاہیے کہ وہ امن بات چیت کب شروع کرنا چاہے گا۔
ایک نئی عالمی جنگ کا خوف
یوکرین کی مدد کرنے والے اور خاص طور پر جرمنی جیسے مغربی ممالک پر یہ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے امن بات چیت شروع کی جانا چاہیے۔ جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی طرف سے نو فروری کے روز مکمل کرائے گئے ملک میں یوکرینی جنگ سے متعلق عوامی رجحانات کے ایک جائزے کے مطابق 58 فیصد جرمن رائے دہندگان نے کہا کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے کافی سفارتی کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ جرمنی میں اس جنگ سے متعلق اتنی بڑی تعداد میں ایسی عوامی رائے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
جرمنی کی لیفٹ پارٹی کی خاتون سیاستدان سارا واگن کنیشت اور خواتین کے حقوق کی معروف کارکن ایلیس شوارس نے ایک درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی کو یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر روکتے ہوئے یہ پوزیشن اپنانا چاہیے کیہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے فی الفور امن مذاکرات شروع کیے جائیں۔
ان دونوں خواتین نے ایک نئی عالمی جنگ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے، ''یوکرین مغربی دنیا کی مدد سے اس جنگ میں چند لڑائیاں تو جیت سکتا ہے تاہم کییف دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت کے خلاف مجموعی طور پر یہ جنگ جیت نہیں سکتا۔‘‘ اس درخواست پر جرمنی کے دیگر بہت سے فنکاروں، مذہبی امور کے ماہرین اور سیاستدانوں نے بھی دستخط کیے ہیں۔
جرمنی میں یوکرینی سفیر کا موقف
برلن میں تعینات یوکرینی سفیر اولیکسی ماکےییف اس کے برعکس کہتے ہیں کہ وہ مغربی دنیا میں پائے جانے والے اس خوف کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جس کے تحت یوکرین کی موجودہ جنگ وسیع تر ہو کر تیسری عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ''یوکرین تو اس وقت تیسری عالمی جنگ کے عین وسط میں کھڑا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ روس ہمارے خلاف ایک ایسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جس کی مدد سے وہ ہمیں پوری طرح تباہ کر دینا چاہتا ہے۔‘‘
یوکرین کو ٹینک کیوں چاہیے ہیں؟
04:57
نیٹو کے سربراہ کی سوچ
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے گزشتہ برس موسم خزاں میں ہی ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ اس جنگ میں یکطرفہ قیام امن کے لیے کسی بھی طرح کے اقدامات کا سوچنا غلط ہو گا۔ تب اسٹولٹن برگ نے کہا تھا، ''اگر یوکرین نے یکطرفہ طور پر لڑائی بند کر دی، تو ایک آزاد ریاست کے طور پر اس کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اس لیے یوکرین کو یہ جنگ جیتنا ہی ہو گی۔‘‘
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یوکرین ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے، مغربی ممالک کییف حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی میں مسلسل اضافہ کرتے رہے ہیں۔ سال رواں کے اوائل میں کافی زیادہ ہچکچاہٹ کے بعد جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومت نے بھی بالآخر اس بات کی منظوری دے دی تھی کہ یوکرین کو جرمن جنگی ٹینک مہیا کیے جائیں۔ چانسلر شولس نے ایسا امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کی طرف سے بھی کییف کے لیے جنگی ٹینکوں کی فراہمی کے وعدوں کے بعد کیا تھا۔
اشتہار
دو ممکنہ جنگی منظر نامے
وفاقی جرمن فوج کے سابق سربراہ ہیلموٹ گانزر نے رواں ماہ کے اوائل میں 'جرنل فار انٹرنیشنل پولیٹکس اینڈ سوسائٹی‘ میں اپنے ایک مضمون میں مغربی ممالک کی طرف سے مہیا کردہ جنگی ٹینکوں کے بعد پیدا ہونے والے دو ممکنہ عسکری منظر ناموں کی پیش گوئی کی تھی۔
روسی فوج کے یوکرین میں تازہ حملے
02:13
This browser does not support the video element.
قدرے کم امیدی کے مظہر ان ممکنہ عسکری منظر ناموں میں جنرل ریٹائرڈ ہیلموٹ گانزر نے لکھا تھا، ''اس طرح مغربی ممالک میں رائے عامہ کو اس بات کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا کہ بمباری سے تباہ شدہ جرمنی کے لیوپارڈ ٹینکوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کرنے لگیں گی۔‘‘
جہاں تک روسی صدر پوٹن کا تعلق ہے، تو انہوں نے دو فروری کے روز دوسری عالمی جنگ کے دوران سٹالن گراڈ کی لڑائی کے 80 برس پورے ہونے کے موقع پر اُس جنگ کا یوکرین کی جنگ سے موازنہ کر بھی دیا تھا۔
اس تناظر میں وفاقی جرمن فوج کے ریٹائرڈ جنرل گانزر نے لکھا، ''قدرے امید پسندانہ منظر نامہ یہ ہو گا کہ یوکرین کو دیے جانے والے جنگی ٹینک آگے بڑھتے ہوئے کریمیا کے نزدیک سمندری علاقے کے ساحلوں تک پہنچ جائیں۔ لیکن یہ دراصل زیادہ خطرناک پیش رفت ہو گی۔
ہیلموٹ گانزر کے الفاظ میں، ''ایسی صورت میں روسی صدر پوٹن اس جنگ کا دائرہ پھیلاتے ہوئے اسے یوکرین کے حامی مغربی ممالک کے ریاستی علاقوں تک لے جائیں گے اور یہ صورت حال پورے یورپ کے لیے انتہائی تباہ کن پیش رفت ثابت ہو گی۔‘‘
روسی افواج کا ماریوپول پر نیا حملہ
روسی افواج نے یوکرینی ماریوپول شہر کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی فورسز ماریوپول کی طرف سست مگر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ماریوپول کی طرف پیش قدمی
روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بالخصوص ماریوپول کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی خونریز ثابت ہو رہی ہے، جہاں ایک ہی دن کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اکیس شہری ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ نشانہ
روسی فورسز نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب بلاتفریق شیلنگ کی ہے۔ مشرقی دونستک ریجن میں اس روسی کارروائی کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔ یہ پلانٹ اب کھنڈر دیکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
قریبی علاقے بھی متاثر
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریبی علاقوں میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ مقامی افراد اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے باوجود روسی افواج ابھی تک اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
لوگوں کا انخلا جاری
روسی حملوں کے بیچ ماریوپول سے شہریوں کا انخلا بھی جاری ہے۔ تاہم سکیورٹی خطرات کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کب وہ روسی بمباری کا نشانہ بن جائیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
آنسوؤں کے ساتھ ہجرت
یوکرینی نائب وزیر اعظم نے ماریوپول کے مقامی لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق شہریوں کے تحفظ اور ان کی محفوظ مہاجرت کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/dpa/picture alliance
جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی فکر میں
نئے حکومتی منصوبے کے تحت اسی ہفتے پیر کے دن 101 شہریوں کو ماریوپول سے نکال کر قریبی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں جانے والے البتہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر اداس ہی ہیں۔ زیادہ تر مرد ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
یوکرینی فوج پرعزم
روسی فوج کی طرف سے حملوں کے باوجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مدد سے وہ روسی پیش قدمی کو سست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ یوکرینی فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔
تصویر: Peter Kovalev/TASS/dpa/picture alliance
روس نواز جنگجوؤں کی کارروائیاں
ماریوپول میں روس نواز مقامی جنگجو بھی فعال ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔BM-21 گراڈ راکٹ لانچ سسٹم سے انہوں نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب حملے کیے، جس کی وجہ سے املاک کو شدید نقصان ہوا۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
روسی فوج کے اہداف نامکمل
چوبیس فروری کو شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے تاہم وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ روسی فوج نے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں ماریوپول کا یہ اسکول بھی شامل ہے، جو روسی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
ماریوپول کھنڈر بن گیا
روسی جارحیت سے قبل یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تقریبا چار لاکھ تھی۔ یہ شہر اب کھنڈر بن چکا ہے۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ اس مقام پر قبضہ کر کے یوکرین کا بحیرہ اسود سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ اسی سمندری راستے سے یوکرین کو خوارک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
سرخ لکیر کہاں ہے؟
یہ سوال کہ بڑھتا ہوا فوجی دباؤ روس کو مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرنے پر مجبور کر دے گا یا ایک نئی عالمی جوہری جنگ کا خطرہ بڑھا دے گا، اس سوال کا جواب ہاں میں بھی دیا جاتا ہے اور نفی میں بھی۔
جرمنی کے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر اولاف شولس کئی مرتبہ زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ جرمنی کسی بھی طور جنگی فریق نہیں بنے گا۔ اسی لیے انہوں نے کییف حکومت کو جرمن جنگی ٹینک دینے کا فیصلہ بڑی تاخیر اور سوچ سمجھ سے کیا۔
اس کے برعکس جرمن اپوزیشن پارٹی سی ڈی یو کے ایک رہنما روڈیرش کیزے ویٹر کہتے ہیں، ''جہاں تک یوکرین کو ہتھیاروں کے نظام مہیا کرنے کی بات ہے، تو کہیں بھی کوئی بھی سرخ لکیر نہیں کھینچی جانا چاہیے۔ اس لیے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی بھی ملک کسی بھی جنگ میں فریق صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ اس جنگ میں اپنے فوجی بھیجے۔‘‘
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
فوجی فتح یا مصالحت کےنتیجے میں امن
یوکرین کی جنگ کے ممکنہ خاتمے کے لیے ایک کلیدی لفظ 'مصالحت‘ یا 'سمجھوتہ‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی لفظ اب تک کھل کر یا درپردہ نہ تو ماسکو سے سننے میں آ رہا ہے اور نہ ہی کییف سے۔ جرمن شہر ہالے کی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات یوہانیس واروِک کہتے ہیں کہ کسی مصالحت کے بغیر بات آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔
یوہانیس واروِک کہتے ہیں، ''جہاں تک یوکرین کی نیٹو میں ممکنہ شمولیت کی بات ہے، تو اس جنگ کا نتیجہ آخرکار غالباﹰ یہی ہو گا کہ یوکرین غیر جانبدار ہو جائے گا۔ یعنی وہ نہ تو روس کے زیر اثر ہو گا اور نہ ہی مغربی دنیا کے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس جنگ کے مزید کافی عرصے تک جاری رہنے کے بعد بھی یہی نتیجہ نکلنا ہے، جو اب بھی ممکن ہے، تو پھر اس جنگ کو مزید جاری رکھنا اور مزید ہزاروں انسانوں کی موت کی وجہ بننا کوئی منطقی رویہ نہیہں ہو گا۔‘‘
روسی یوکرینی جنگ سے متعلق دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے: کیا تنازعے کا حل روس کے خلاف فوجی فتح ہی ہو سکتی ہے یا یوکرین اور اس کی حامی مغربی دنیا کو کوئی مصالحتی حل تلاش کرنا چاہیے؟ روسی یوکرینی جنگ کو ایک سال ہو گیا ہے۔ اب تک نہ یہ جنگ ختم ہوئی ہے اور نہ ہی اس بارے میں بحث کہ اس جنگ کے خاتمے کا سبب بننے والا کون سا امکان بہتر ہو گا؟
م م / ع ت (کرسٹوف ہاسل باخ)
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔