1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ کو ہتھیاروں کی برآمد: روس کی طویل المدتی پالیسی کیا؟

1 جون 2020

قدرتی وسائل کے علاوہ روسی معیشت میں ہتھیاروں کی برآمد بھی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران افریقہ کے ساتھ اپنے روابط کو مزید گہرا کرتے ہوئے روس اس براعظم کو ہتھیار فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/J. Moore

ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت کرنے والے روس کے سرکاری ادارے روسو بورون ایکسپورٹ نے دو ماہ قبل اپریل میں اعلان کیا تھا کہ اسے پہلی مرتبہ زیریں صحارا کے ایک افریقی ملک کو جنگی کشتیاں فراہم کرنے کا پہلا آرڈر مل گیا ہے۔ ان جنگی کشتیوں کے درآمد کنندہ ملک کا نام نہیں بتایا گیا تھا۔ جو بات مصدقہ ہے، وہ یہ کہ یہ معاہدہ گزشتہ دو عشروں کے دوران اس افریقی خطے کو روسی جنگی بحری مصنوعات کی فروخت کے سلسلے میں ماسکو کو ملنے والا اولین معاہدہ ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ نیا دفاعی تجارتی معاہدہ اسی طرز عمل کی تصدیق کرتا ہے، جس کے تحت روس افریقہ میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں تیز تر کرتا جا رہا ہے اور اس براعظم کو ہتھیاروں کی فروخت کے عمل میں روس زیادہ سے زیادہ فیصلہ کن کردار کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔

گزشتہ دو عشروں کے دوران آنے والی تبدیلیاں

ماضی کی ریاست سوویت یونین بھی افریقہ کو ہتھیار برآمد کرنے والی ایک بڑی ریاست تھی۔ پھر جب سوویت یونین ٹوٹا، تو افریقہ میں روس کا کردار بھی زوال کا شکار ہو گیا۔ لیکن گزشتہ بیس برسوں کے دوران ماسوکو نے ایک مرتبہ پھر افریقہ میں اپنے لیے اثر و رسوخ کے راستے ہموار اور وسیع کرنا شروع کر دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس آج پھر افریقہ کو ہتھیار اور کئی طرح کی دفاعی مصنوعات فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سپرِی کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افریقہ کو دنیا کے مختلف ممالک ہر سال جتنا بھی اسلحہ فروخت کرتے ہیں، اس کا 49 فیصد یا تقریباﹰ نصف صرف روس فروخت کرتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس سال کے اوائل سے افریقی ممالک کو ماسکو کی طرف سے اسلحے کی فروخت میں مزید تیزی آ چکی ہے۔ اس دوران جس ایک ملک کو روس نے سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کیے یا ان کے معاہدے کیے، وہ الجزائر ہے۔

روس کی آنکھیں افریقہ پر لگی ہوئی

اب تک براعظم افریقہ میں روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ملک الجزائر ہے۔ اس کے بعد باقی تین بڑے ممالک میں بالترتیب افریقہ، سوڈان اور انگولا کے نام آتے ہیں۔ سپرِی (SIPRI) کے ہتھیاروں اور مسلح افواج پر خرچ کی جانے والی رقوم سے متعلقہ پروگرام سے منسلک ایک محققہ آلیکساندرا کیُومووا کے مطابق پچھلی دو دہائیوں کے دوران ان ممالک کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے، جو روس سے باقاعدگی سے ہتھیار خریدنے لگے ہیں۔

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے آغاز پر ایسے ممالک کی تعداد صرف 16 تھی، پھر 2010ء اور 2019ء کے درمیان روس سے اسلحہ خریدنے والی افریقی ریاستوں کی تعداد بڑھ کر 21 ہو گئی۔ اس دوران 2015ء کے آغاز سے ماسکو نے تیل سے مالا مال افریقی ملک انگولا کو جس جنگی اور دفاعی ساز و سامان کی فروخت شروع کی، اس میں تو جنگی طیارے اور لڑاکا ہیلی کاپٹر سب سے نمایاں تھے۔

نئی منڈیاں کھونے کی پالیسی

افریقہ میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ اس کے سیاسی اور اسٹریٹیجک پہلو بھی ہیں۔ اس لیے کہ روس اپنی سوچ اور سیاسی ترجیحات کے مطابق ایک کثیرالقطبی دنیا کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور اس عمل میں ماسکو اپنے لیے افریقہ کو ایک کلیدی پارٹنر براعظم کے طور پر دیکھتا ہے۔

کارنیگی اینڈاؤمنٹ کے روس اور یوریشیا پروگرام کے سینیئر فیلو پال اسٹرونسکی کہتے ہیں، ''افریقی ممالک میں حکام سوویت دور مین اپنے ماسکو کے ساتھ روابط کی وجہ سے اب تک روس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سوویت یونین کی تقسیم کے بعد بھی روس اس براعظم میں کسی نہ کسی طرح اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔‘‘

روس کی جغرافیائی ترجیحات اور سستے ہتھیار

پال اسٹرونسکی کہتے ہیں کہ روس اس لیے افریقہ پر بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے کہ اس کی ترجیحات کا محور یورپی ممالک نہیں، ماسکو بحر اوقیانوس کے آر پار کے تعلقات کو بھی اس وقت زیادہ عملی اہمیت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس روس کی زیادہ تر توجہ ابھرتی ہوئی طاقتیں بنتے جا رہے ممالک اور ترقی کرتے ہوئے خطوں پر مرکوز ہے۔ اس لیے ماسکو کی نظریں افریقہ پر لگی رہنا روس کا ایک منطقی رویہ ہے۔

دفاعی ماہرین کے بقول افریقہ میں روس سے ہتھیار خریدنا اس لیے بھی پسند کیا جاتا ہے کہ بات چاہے طیاروں کی ہو، ہیلی کاپٹروں کی، میزائلوں یا ٹینکوں کی یا پھر توپ خانے اور دفاعی میزائل نظاموں کی، روسی اسلحہ بالعموم مغربی ممالک کے مقابلے میں سستی قیمت پر مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے ہتھیار خریدنے والے ممالک سے دفاعی سمجھوتے کرتے ہوئے یا جنگی تجارتی سامان کی فراہمی کے وقت بھی ماسکو کی طرف سے کوئی سوال نہیں پوچھے جاتے۔

یہ بات افریقہ کی ان سب ریاستوں کے لیے دفاعی سیاست میں آسانیاں پیدا کرتی ہے، جو یا تو پہلے ہی روس کے عسکری تجارتی ساتھی ہیں یا اس کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ جہاں تک اس حوالے سے خود ماسکو کے اپنے پالیسی موقف کا سوال ہے، تو وہ یہ کہتے ہوئے افریقی ممالک کو ہتھیار فروخت کرتا ہے کہ اس براعظم کے بہت سے ممالک عدم استحکام کا شکار ہیں اور افریقہ کو بین الاقوامی دہشت گردی سمیت کئی متنوع وجوہات کے باعث اس وقت استحکام  کی اشد ضرورت ہے۔

تاتیانا کونڈراتینکو (م م / ع ب)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں