روس: انتخابی مہم کے بائیکاٹ کے خلاف وائرل ویڈیوز کا استعمال
21 فروری 2018
روس آئندہ صدارتی انتخابات میں ووٹروں کی تعداد بڑھانے کے لیے مزاحیہ ویڈیوز کا استعمال کر رہا ہے۔ اس مہم کا مقصد اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کو غیر مؤثر بنانا ہے۔
اشتہار
سین یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ایک روسی جوڑا رات کو بستر میں لیٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ بیوی کہتی ہے، ’’میں نے نو بجے کا الارم لگا دیا ہے۔‘‘ شوہر جواب دیتا ہے، ’’تم کتنی سمجھدار ہو لیکن اب الارم ختم کر دو کیوں کہ کل اتوار کی چھٹی ہے۔‘‘ بیوی جواب دیتی ہے، ’’کل بہت بڑا دن ہے، ہمیں ووٹ ڈالنے جانا ہے۔‘‘ شوہر طنزیہ انداز میں کہتا ہے، ’’تم تو ایسے کہہ رہی ہو، جیسے تمہارے بغیر ووٹنگ نہیں کروائی جائے گی۔‘‘ اس کے بعد شوہر جلد ہی گہری نیند میں چلا جاتا ہے اور زور زور سے خراٹے لینا شروع کر دیتا ہے۔ پھر بیوی کے حق میں یہ لکھا ہوا آتا ہے، ’’اپنی مشکلات اور ڈراؤنے خواب ختم کیجیے‘‘۔
اسی طرح ایک ویڈیو میں بیٹا والد کو کہتا ہے کہ اسے اسکول کی سکیورٹی فیس جمع کروانے کے لیے ایک ملین روبل چاہییں۔ والد پریشان ہو کر کچن میں جاتا ہے تو وہاں ایک ہم جنس پرست لڑکا کیلا کھا رہا ہوتا ہے۔ وہاں کھڑی بیوی اپنے پریشان شوہر کو بتاتی ہے کہ حکومت نے ایسے ہم جنس پرستوں کی کفالت کو لازمی قرار دے دیا ہے، جنہیں کوئی ساتھی نہیں مل رہا۔ اس کے بعد والد چیختا ہوا نیند سے بیدار ہو جاتا ہے اور اپنی اہلیہ سے کہتا ہے جلدی کرو، ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
ایک دوسرے ٹی وی ایڈ میں ایک دروازے پر گھنٹی بجتی ہے۔ ایک شخص دروازہ کھولتا ہے تو اسے ایک فوجی افسر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس شخص کو کہتا ہے کہ آپ نے ڈیوٹی پر جانا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے، ’’میری عمر اب باون برس ہو چکی ہے۔‘‘ افسر جواب دیتا ہے کہ صدر نے عمر کی حد ساٹھ برس کر دی ہے۔ اس افسر کے ساتھ ایک افریقی شخص بھی افسر کے روپ میں آتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر تم نے اب کچھ نہ کیا تو نقل مکانی کر کے آنے والے افریقی باشندے فوج میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔
ان تمام اشتہارات کے ذریعے حکومت ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں اضافہ چاہتی ہے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالے جائیں۔ سن دو ہزار سولہ کے پارلیمانی انتخابات میں صرف چھیالیس فیصد اہل افراد نے ووٹ ڈالے تھے جبکہ ماسکو میں یہ شرح صرف پینتیس فیصد رہی تھی۔
روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔