1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتروس

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

8 فروری 2025

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کے بارے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ روسی صدر کو اس معاملے میں کوئی دلچسپی ہے یا نہیں۔

Donald Trump und Wladimir Putin in Helsinki | Archivbild 2018
تصویر: Newscom World/IMAGO

روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کو تقریبا تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے۔ روسی فوج یوکرین میں کئی محاذوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یوکرین کو جنگی ہتھیاروں اور افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر یوکرین کی جنگی امداد روکی جاسکتی ہے۔

روس اور مغربی ماہرین کا ماننا ہے کہ روسی صدر اپنا ہدف کے حصول کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کر دیں۔

ٹرمپ نے اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ روس یوکرین تنازعہ 24 گھنٹوں کے اندر حل کر سکتے ہیں۔ بعد تاہم انہوں نے ان چوبیس گھنٹوں کو چھ ماہ میں تبدیل بھی کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم کریملن کے ساتھ اس معاملے پر 'انتہائی سنجیدہ‘ گفتگو کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ اور روسی صدر جلد ہی اس جنگ کے خاتمے کے لیے 'اہم قدم‘ اٹھائیں گے۔ اس جنگ میں روس کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روس کو فوجی اموات کے علاوہ مغربی پابندیوں اور معیشت میں گراوٹ جیسے معاملات کا سامنا ہے

لیکن بہرحال روسی معیشت مکمل زبوں حالی کا شکار نہیں ہوئی۔ پوٹن نے اس دوران تمام مخالف آوازوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا اور اسی لیے انہیں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ملکی سطح پر کسی بھرپور دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

کیا ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

02:27

This browser does not support the video element.

یوکرین سے متعلق بات چیت، یوکرین کے بغیر؟

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوٹن کییف کو معاملات سے باہر رکھ کر ٹرمپ کے ساتھ بہ راہ راست  بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

زیلنسکی نے کہا، ”ہم کسی کو یوکرین کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنے دے سکتے ہیں،" انہوں نے کہا کہ

 روس یوکرین کی آزادی اور خودمختاری تباہ کرنا چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی امن ڈیل دیگر آمرانہ سوچ رکھنے والے رہنماؤں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کرے گی۔

سفارتی حلقے کیا سوچتے ہیں؟

2016 سے 2019 تک امریکہ میں تعینات برطانوی سفیر سر کم ڈروچ کے مطابق، ”ٹرمپ اپنے امن معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے خواہاں ہیں تاہم پوٹن یوکرین کو اپنی 'آبائی زمین‘ قرار دیتے ہیں اور وہ اتنی آسانی سے یہ علاقے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

نیٹو کے سابق ترجمان اوانا لنجکو نے کہا کہ ماسکو کے حق میں ہونے والا معاہدہ امریکہ کی کمزور پالیسی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ فن لینڈ کے سابق صدر سولی نینسٹو نے کہا، ٹرمپ اور پوٹن میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ پوٹن ایک منظم مفکر ہیں جو سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں اور ٹرمپ ایک کاروباری سوچ کے حامل انسان ہیں جن کے فیصلے فوری اور جلدبازی کے ہوتے ہیں۔

شخصیتوں میں اختلاف اس معاملے پر بھی تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ اس جنگ کا فوری حل چاہتے ہیں جبکہ روسی صدر اس پر ابھی راضی دکھائی نہیں دیتے۔ یوکرینی صدر کے مطابق پوٹن ابھی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اس حوالے سے ہر پیش قدمی کو سبوتاژ کر دیں گے۔

جنیوا میں سابق روسی سفارتکار، بورس بونڈاریف نے کہا، ”ٹرمپ بلآخر اس معاملے سے اکتا جائیں گے اور ان کی توجہ کسی اور مسئلے پر مرکوز ہو جائے گی اور اس بات کا اندازہ پوٹن کو بخوبی ہے۔"

لندن کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایک روسی فوجی اور معاشی ماہر رچرڈ کونولی نے کہا کہ ٹرمپ نے روس کو مزید ٹیکس، پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کٹوتی کی دھمکی دی ہے، لیکن معاشی طور پر کمزور کرنا کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں۔ کیونکہ کے روس کو پہلے ہی کئی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

روس کے خلاف پابندیاں غیر مؤثر

02:13

This browser does not support the video element.

ٹرمپ کے پاس کون سے آپشنز ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اس بات کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے  کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ تمام مغربی پابندیاں ختم کر سکتے ہیں۔ وہ نہ تو یورپ کو روسی توانائی کی درآمد کو دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کو پوٹن کے لیے اپنے جنگی جرائم کی گرفتاری کے وارنٹ کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوپیک الائنس اور سعودی عرب پوٹن پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کرے۔ دوسری جانب کریملن اس بات کی پروا نہیں کرتا، کیونکہ ماسکو حکومت کے مطابق یہ جنگ روسی سلامتی کے بارے میں ہے، تیل کی قیمتوں کے بارے میں نہیں۔ روس کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس سے امریکی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کے اتحادی اکثر ان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پوٹن پر یہ خوف طاری نہیں ہوا تو؟

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں