1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور مغرب اب بھی خلا میں مل کر کیوں کام کر رہے ہیں؟

15 اکتوبر 2022

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن روس اور مغرب کے مابین باہمی تعاون کا ایسا واحد منصوبہ ہے جسے ابھی تک ترک نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے، اس رپورٹ میں پڑھیے۔

سپیس ایکس کی ٹیم
سپیس ایکس کی ٹیمتصویر: NASA/ZUMA Press/picture alliance

یوکرین کی جنگ کے باعث مغرب کے ساتھ روس کے زیادہ تر سیاسی، سائنسی اور تعلیمی تعاون روکا جا چکا ہے۔

لیکن اس تنازع کے باوجود ایک منصوبہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے، آنا کیکینا 20 سالوں میں امریکی راکٹ پر لانچ کی جانی والی پہلی روسی خلاباز بن گئیں - اور اسپیس ایکس کے جہاز پر سوار ہونے والی واحد خلاباز بن گئیں۔

کیکینا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) جا رہی ہیں، جہاں وہ ’اسپیس ایکس کریو-5 مشن‘ کی رکن کے طور پر چار ماہ سے زیادہ عرصے تک رہیں گی۔ مشن پر ان کی موجودگی کا اعلان جولائی میں عملے کے تبادلے کے نتیجے میں کیا گیا تھا جس کی ذریعے ناسا کے ایک خلاباز کو آئی ایس ایس کے لیے روسی پرواز پر سفر کیا تھا۔

آئی ایس ایس امریکہ، روس، کینیڈا، یورپی یونین اور جاپان کے درمیان 25 سال پرانا خلائی تعاون ہے جسے طویل عرصے سے سرد جنگ کے بعد کے کامیاب تعلقات کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہ ان چند منصوبوں میں سے ایک ہے جن پر روس اور مغرب نے فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بھی مل کر کام کرنا جاری رکھا ہے۔

خلائی ماحولیاتی لیب

آئی ایس ایس زمین کے نچلے مدار میں سب سے بڑا خلائی اسٹیشن ہے اور 20 برسوں میں خلا میں انسان کی سب سے طویل موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے زیادہ تر خلائی ماحولیاتی لیب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران فلکیات، طبیعیات اور مائکروبائیولوجی میں ہزاروں تجربات کیے گئے ہیں.

آنا کیکینا 20 سالوں میں امریکی راکٹ پر لانچ کی جانی والی پہلی روسی خلاباز بن گئیںتصویر: Maksim Blinov/Sputnik/dpa/picture alliance

یہ ماڈیول دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک روس کی طرف سے تیار اور چلایا جاتا ہے، جب کہ دوسرا امریکہ کی طرف سے تیار اور چلایا جاتا ہے، لیکن دوسرے شراکت دار ممالک کی حمایت کے ساتھ.

اسٹیشن کا جو حصہ اسے مدار میں رکھتا ہے، اس حصے پر روس کی ذمہ داری ہے۔

’ایک اضافی دھکا‘

آئی ایس ایس ’فری فال‘ کی حالت میں ہے، جس سے بے وزنی یا 'مائکروگریویٹی‘ کا احساس پیدا ہوتا ہے ، جس سے مراد یہ ہے کہ جہاز میں کشش ثقل کبھی بھی بالکل صفر نہیں ہوتی ہے۔ زمین، سورج، خلائی اسٹیشن اور خلابازوں سمیت ہر چیز کشش ثقل رکھتی ہے.

اسٹیشن مدار میں رہنے کے قابل اس لیے ہے کیوں کہ یہ زمین کے گرد اتنی تیزی سے چکر لگاتا ہے کہ ’فری فال‘ کی حالت کی تلافی کی جا سکے۔ یہ تقریباً 8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتا ہے، یعنی نو ملی میٹر کی گولی کی رفتار سے 20 گنا زیادہ۔

اگرچہ تیز رفتار اور ولاسٹی اسے مدار میں رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے لیکن کبھی اس کی بلندی کم ہو جاتی ہے اور پھر اسے معمول کے مطابق زمین سے 400 کلومیٹر بلندی پر رہنے کے لیے ایک اضافی دھکے کی ضرورت پڑتی ہے. روسی ماڈیول یہ کام کرتا ہے۔

ناسا کے اہلکار بل نیلسن نے جولائی میں جرمن جریدے ’ڈیئر شپیگل انٹرنیشنل‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ''دونوں ممالک کو خلا میں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے، روسیوں کو پروپلشن کے لیے، امریکیوں کو توانائی کے لیے۔ کہ ہم اس اسٹیشن کو زندہ رکھنے کے لیے خلابازوں کے مابین بہت ہی پیشہ ورانہ تعلقات برقرار رکھیں گے۔‘‘

خلائی اسٹیشن اور سائنس

فری فال کی حالت کشش ثقل کی اس حالت سے مختلف ہوتی ہے جس کا تجربہ ہم زمین پر کرتے ہیں۔ آئی ایس ایس پر عجیب و غریب چیزیں ہوتی ہیں: خلابازوں کے ٹوتھ برش پر موجود پانی بلبلے بناتا ہے، ایک چھینک انہیں الٹی سمت دھکیل سکتی ہے، اور موم بتی کا شعلہ بالکل گول دکھائی دیتا ہے۔

دن میں 16 بار زمین کے گرد گھومنے والے اس اسٹیشن پر کیے جانے والے سائنسی مشاہدات زیادہ تر یہ سمجھنے پر مرکوز ہوتے ہیں کہ طویل فاصلے تک چلنے والی خلائی پروازیں خلابازوں کی صحت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔

یہ معلومات مثال کے طور پر مریخ تک طویل سفر کے مشن ڈیزائن کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

خلائی اسٹیشن روس کے تعاون سے چلتا ہےتصویر: Stanislav Rishnyak/Zoonar/picture alliance

آئی ایس ایس پر کیے گئے تجربات کے ذریعے سائنس دانوں نے یہ سیکھا ہے کہ ہڈیاں ’مائکروگریویٹی‘ میں کثافت کھو دیتی ہیں اور خلابازوں کو اپنے پٹھوں کی کمیت کو برقرار رکھنے کے لیے روزانہ دو گھنٹے ورزش کرنا پڑتی ہے۔

ناسا کے مشہور ٹوئن اسٹڈی نے سائنسدانوں کو یہ اہم سبق سکھایا کہ خلا میں کس طرح ’ٹیلومیرز‘ کی یعنی کروموسوم کے انتہائی کونے، جو عمر، مدافعتی نظام اور جین کے اظہار میں کردار ادا کرسکتے ہیں، لمبائی متاثر ہوتی ہے۔

امریکہ اور روس کے اس مشترکہ تجربے کے لیے محققین نے دو ایک جیسے جڑواں بچوں کا مطالعہ کیا، دونوں اب ریٹائرڈ خلاباز ہیں۔ اسکاٹ کیلی خلانورد میخائل کورنینکو کے ساتھ تقریبا 11 ماہ تک آئی ایس ایس پر سوار رہے جبکہ ان کا بھائی مارک زمین پر رہا۔

یہ صرف خلابازوں کی صحت تک محدود نہیں۔ دوسرے منصوبے، جیسے ’ایکوایمبرین واٹر ری سائیکلنگ‘ تجربہ ، زمین کے باسیوں کی بھی مدد کرسکتے ہیں۔ 'فارورڈ اوسموسس‘ واٹر فلٹرنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خلاباز پیشاب فلٹر کر کے پینے کے قابل صاف پانی بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ٹیکنالوجی اس وقت زمین پر استعمال ہونے والے متبادل طریقوں کی نسبت کہیں زیادہ تیز ہے، جسے 'ریورس اوسموسس‘ کہا جاتا ہے اور مستقبل میں پانی کی کمی والے علاقوں کے لیے اس کے بڑے اثرات ہو سکتے ہیں۔

مستقبل کے منصوبے

روسکوسموس کے صدر یوری بوریسوف نے جولائی میں کہا تھا کہ روس سن 2024 میں آئی ایس ایس سے نکلنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اپنا خلائی اسٹیشن لانچ کیا جا سکے۔

لیکن ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کے مطابق، انہیں روس کی طرف سے کوئی باضابطہ فیصلہ موصول نہیں ہوا، اور روسکوسموس میں انسانی خلائی پروگراموں کے سربراہ سرگئی کرکالیف نے ’کریو 5 لانچ‘ سے پہلے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ تعاون کو 2024 تک بڑھایا جا سکتا ہے.

امریکہ نے باہمی تعاون اس دہائی کے اختتام تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے اگست کے اوائل میں ’چپس ایکٹ‘ پر دستخط کیے تھے جس میں آئی ایس ایس کے ساتھ ناسا کی شمولیت کو چھ سال یعنی 2030 تک بڑھایا گیا ہے۔

کیا کوئی متبادل ہے؟

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا روس کے بغیر آئی ایس ایس جاری رہ سکتا ہے یا نہیں۔

نارتھروپ گرومین کا ’سیگنس‘ خلائی جہاز اس موسم گرما کے اوائل میں اسٹیشن کو کامیابی کے ساتھ مستحکم کرنے میں کامیاب رہا تھا، جو کہ ایک متبادل ہو سکتا ہے۔ سیگنس بھی اسپیس ایکس ڈریگن کی طرح ناسا کے تجارتی خلائی جہاز کے شراکت داروں میں سے ایک ہے۔

لیکن روسی ماڈیول کو امریکی ماڈیول سے الگ کرنے میں وقت اور پیسہ لگے گا، اور ابھی تک کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

جرمن یورپی خلائی ایجنسی کے خلانورد میتھیاس ماؤر کے مطابق جب جہاز پر سوار خلابازوں اور خلانوردوں کی بات آتی ہے تو زمین پر شروع ہونے والا یوکرینی تنازع ان کے لیے حیران کن تھا۔ یہ بات انہوں نے آئی ایس ایس پر 170 سے زیادہ دن گزارنے کے بعد مئی میں زمین پر واپس آ کر جرمن خلائی پوڈ کاسٹ پر کھل کر بات کی۔

کلیئر روتھ (ش ح/ک م)

امریکہ: نئی ویب خلائی دوربین سے پہلی تصاویر جاری

01:53

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں