روس اور پاکستان کے بہتر ہوتے تعلقات، کسے فائدہ ہو گا؟
عبدالستار، اسلام آباد
12 دسمبر 2019
خارجہ اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو خوش آئند قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ناراضی کو خاطر میں نہ لائے اور ماسکو سے تعلقات کو مزید بہتر کرے۔
اشتہار
ماضی میں پاکستان کا سخت حریف سمجھا جانے والا روس اب اسلام آباد سے بہتر تعلقات کا خواہاں نظر آتا ہے۔ روس نے نہ صرف سٹیل مل کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے بلکہ پاکستان کے توانائی اور ریلوے کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری اور معاونت کرنے میں بھی دلچسپی لی ہے۔
حال ہی میں روس کے ایک تجارتی وفد نے وزیرتجارت اور صنعت ڈینس مینڈرو کی قیادت میں پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ اس سال کے شروع میں روس نے توانائی کے پاکستانی شعبے میں چودہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
حالیہ ملاقاتوں کے پیش نظر یہ امید کی جا رہی ہے کہ روسی کمپنیاں کراچی سے لاہور تک گیس کی پائپ لائن بچھائیں گی، جب کہ دونوں ممالک دفاعی شعبے میں بھی تعاون بڑھائیں گے۔ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان نے اس امر کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''سرد جنگ ختم ہو گئی ہے اور اب ہمارے روس سے تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن میں اس کا کیا رد عمل ہو گا اور روس سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے چاہییں تاکہ خطے میں امن و استحکام آ سکے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کے سرد جنگ کے دوران پاکستان نے مغرب کی محبت میں بلاوجہ روس سے دشمنی مول لی۔ اسلام آباد نے سیٹو اور سینٹو جیسے مغربی معاہدوں کا حصہ بن کر ماسکو کو اشتعال دلایا اور ایک مرحلے پہ سوویت روس نے پاکستان کو عسکری طور پر نشانہ بننانے کا سوچا۔
دنیا میں سفارت کاری کے سب سے بڑے نیٹ ورک کن ممالک کے ہیں
دنیا میں اقتصادی ترقی اور سیاسی اثر و رسوخ قائم رکھنے میں سفارت کاری اہم ترین جزو تصور کی جاتی ہے۔ دیکھیے سفارت کاری میں کون سے ممالک سرفہرست ہیں، پاکستان اور بھارت کے دنیا بھر میں کتنے سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Harnik
1۔ چین
لوی انسٹی ٹیوٹ کے مرتب کردہ عالمی سفارت کاری انڈیکس کے مطابق چین اس ضمن میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دنیا بھر میں چینی سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 276 ہے۔ چین نے دنیا کے 169 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ مختلف ممالک میں چینی قونصل خانوں کی تعداد 98 ہے جب کہ مستقل مشنز کی تعداد آٹھ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
2۔ امریکا
امریکا دنیا بھر میں تعینات 273 سفارت کاروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکا کے دنیا کے 168 ممالک میں سفارت خانے موجود ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 88 ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ اور دیگر اہم جگہوں پر تعینات مستقل امریکی سفارتی مشنز کی تعداد نو ہے۔
تصویر: AFP/B. Smialowski
3۔ فرانس
فرانس اس عالمی انڈیکس میں 267 سفارتی مشنز کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک فرانس کے 161 سفارت خانے، 89 قونص خانے، 15 مستقل سفارتی مشنز اور دو دیگر سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Valat
4۔ جاپان
جاپان نے دنیا کے 151 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں اور مختلف ممالک کے 65 شہروں میں اس کے قونصل خانے بھی موجود ہیں۔ جاپان کے مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 10 ہے اور دیگر سفارتی نمائندوں کی تعداد 21 ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں جاپان کے سفارتی مشنز کی تعداد 247 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/I. Kalnins
5۔ روس
روس 242 سفارتی مشنز کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 144 ممالک میں روسی سفارت خانے ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 85 ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kremlin Pool
6۔ ترکی
مجموعی طور پر 234 سفارتی مشنز کے ساتھ ترکی سفارت کاری کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 140 ممالک میں ترکی کے سفارت خانے قائم ہیں اور قونصل خانوں کی تعداد 80 ہے۔ ترکی کے 12 مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/K. Ozer
7۔ جرمنی
یورپ کی مضبوط ترین معیشت کے حامل ملک جرمنی نے دنیا کے 150 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ جرمن قونصل خانوں کی مجوعی تعداد 61 اور مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 11 ہے۔ جرمنی کے سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 224 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
8۔ برازیل
لاطینی امریکا کی ابھرتی معیشت برازیل کے بھی دنیا بھر میں 222 سفارتی مشنز ہیں جن میں 138 سفارت خانے، 70 قونصل خانے اور 12 مستقل سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: AFP/S. Lima
9۔ سپین
سپین 215 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 115 ممالک میں ہسپانوی سفارت خانے ہیں اور مختلف ممالک کے شہروں میں قائم ہسپانوی قونصل خانوں کی تعداد 89 ہے۔
تصویر: Fotolia/elxeneize
10۔ اٹلی
اٹلی نے 124 ممالک میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ قونصل خانوں کی تعداد 77 ہے جب کہ آٹھ مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔ دنیا بھر میں اٹلی کے مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 209 ہے۔
تصویر: Imago
11۔ برطانیہ
برطانیہ کے دنیا بھر میں مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 205 ہے جن میں 149 سفارت خانے، 44 قونصل خانے، نو مستقل سفارتی مشنز اور تین دیگر نوعیت کے سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: imago/ITAR-TASS/S. Konkov
12۔ بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت مجموعی طور پر 186 سفارتی مشنز کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں بارہویں اور ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت نے 123 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ دنیا بھر میں بھارتی قونصل خانوں کی تعداد 54 ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور آسیان کے لیے خصوصی سفارتی مشن سمیت بھارت کے دنیا میں 5 مستقل سفارتی مشنز بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
28۔ پاکستان
پاکستان مجموعی طور پر 117 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں 28ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے دنیا کے 85 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ پاکستانی قونصل خانوں کی تعداد 30 ہے۔ علاوہ ازیں نیویارک اور جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے مستقل پاکستانی سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
13 تصاویر1 | 13
یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر ذاکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ بھارت کے برعکس پاکستان نے سارا انحصار مغربی ممالک پر کیا اور آج بھارت فائدے میں ہے، جبکہ پاکستان کو اس سے نقصان ہوا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نجم الدین نے کہا، ''پاکستان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ کسی ایک بڑی طاقت پر انحصار کرنا نہیں چاہتا۔ اسلام آباد کو معلوم ہے کہ روس کا جھکاؤ اب مشرقی ممالک کی طرف ہو رہا ہے اور اس نے اپنے سکیورٹی دستاویز میں بھی اس جھکاؤ کا اظہار کیا ہے. لہذا پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی مشقیں بھی ہوئی ہیں جبکہ دفاع کے معاملے پر بھی دونوں ممالک میں بات چیت جاری ہے۔ روس کا کئی علاقائی تنظیموں میں اہم کردار ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے اور پاکستانی پالیسی سازوں کے خیال میں استحکام کے لیے روس بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘
مغرب سے صرف شمشاد احمد خان کو ہی گلہ نہیں بلکہ پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگار بھی مغرب سے نالاں نظر آتے ہیں۔ تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ مغرب نے ہمیشہ صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے۔
اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مغرب کو ہماری قربانیوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں قربان کی ہیں۔ ہمارا کئی بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ امریکا نے ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ہمیں صرف لیکچر دیے اور دھمکی دی اور جب عمران خان نے حالیہ دورہ کیا اس دوران بھی باتیں کی گئیں کہ امریکا پاکستان کی مدد کرے گا۔ لیکن یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ تھا۔ ہم نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو سی پیک پر اعتراض ہے تو آپ بھی اس میں حصہ دار بن جائیں لیکن وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو ایسی صورتحال میں پاکستان ہر اس ملک کی طرف دیکھے گا جو پاکستان کے دفاعی شعبوں کی صلاحیت کو بڑھا سکے اور پاکستان کی مالی مدد کر سکے۔‘‘
جنرل امجد کا شکوہ تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکا کی مدد کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی امریکا کا ساتھ دیا، لیکن امریکا ہمیشہ نئی دہلی کا ساتھ دیتا ہے اور بھارت جب بھی پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرتا ہے تو امریکا اس کا ہمنوا ہوتا ہے۔
اسی تناظر میں ان کا مزید کہنا تھا، ''میرا خیال ہے کہ روس اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر نئی دہلی کو پریشانی ہوگی۔ لیکن ہم انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ امریکا سے اپنے تعلقات بہتر کر رہے تھے اور امریکا کے قریب ہو رہے تھے تو ہم نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ہر ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس طرح کی پالیسی اپنے لیے بہتر سمجھے، اسے اپنائے۔ میرا خیال ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان تعاون کی یہ بات اور تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ خطے میں استحکام آسکے۔‘‘
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔