روس اور چین کے ساتھ تخفیف اسلحہ کے معاہدے کی امریکی خواہش
29 فروری 2020
واشنگٹن حکومت ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ ایک نئے سہ فریقی معاہدے کے لیے مذاکرات پر زور دے رہی ہے۔ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ نے روس اور چين کے ساتھ تخفیف اسلحہ کی نئی ڈيل کے ليے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scott Howe/The Defense Department of the US
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے جمعہ کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس روس اور چین کے ساتھ اسلحے کی روک تھام کے لیے ایک سہ فریقی معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واشنگٹن حکومت نے ماسکو حکومت کو مطلع کر ديا ہے کہ اس سلسلے ميں ايک سمٹ منعقد کرائی جا سکتی ہے، جس میں تینوں ممالک کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کے دیگر ارکان، برطانیہ اور فرانس بھی شامل ہوں گے۔ سلامتی کونسل کے یہ مستقل پانچ ارکان ‘P5’ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
یہ پی فائیو اجلاس کب اور کہاں منعقد ہوگا اس حوالے سے ابھی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ اس عہدیدار کے مطابق پی فائیو کے اجلاس کے لیے ایک موقع ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوسکتا ہے، کیونکہ وہاں تقریبا تمام عالمی رہنما جمع ہوتے ہیں۔
اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اس امریکی عہدیدار نے مزید کہا، ''صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ وہ امریکی قومی سلامتی کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کسی بھی وقت کسی بھی عالمی رہنما سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ امریکا دیگر پی فائیو ممالک کے ساتھ مل کر ایسی میٹنگ تیار کرنے اور منظم کرنے کے لیے کام کرے گا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Singer
اسلحےکی روک تھام کا موجودہ معاہدہ
امريکا اور روس کے درميان اسلحے کے روک تھام کا موجودہ نیو اسٹریٹیجک معاہدہ (نیو اسٹارٹ) آئندہ برس ختم ہو رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت جوہری ہتھیار، میزائل اور بمبار طیاروں کی تعیناتی کی ایک مخصوص حد مقرر ہے۔
اس معاہدے کی مدت ميں توسيع پر بات چيت جاری ہے تاہم امريکا کا موقف ہے کہ مستقبل کے کسی معاہدے ميں چين کو بھی فريق کے طور پر شامل کيا جائے۔ روس نیو اسٹارٹ ميں پانچ برس کی توسيع چاہتا ہے اور وہ بھی چين کی شموليت پر بھی رضامندی کا عندیہ دے چکا ہے۔
ع آ / ش ح (اے پی، روئٹرز)
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔