طویل انتظار کے بعد روس اور یوکرائن کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل پر عمل ہو گیا ہے۔ اس ڈیل کے تحت یوکرائن کے چوبیس سیلرز کو بھی روس نے رہائی دے دی ہے۔
اشتہار
روس اور یوکرائن کے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں قیدیوں کے تبادلے کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی اور مثبت شروعات کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ ماسکو اور کییف کے درمیان بداعتمادی کے گہرے بادل چھٹ سکتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد پیدا ہو سکے گا۔
جمعرات پانچ ستمبر کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے خاصا وقت درکار ہے۔
ماسکو کی جیل سے یوکرائنی نیوی کے دو درجن سیلرز کو سات ستمبر کو ہوائی اڈے پہنچایا گیا اور وہاں سے وہ ایک ہوائی جہاز کے ذریعے یوکرائن کی جانب روانہ ہوئے۔
ان سیلرز کو روسی بحریہ نے گزشتہ برس حراست میں لیا تھا۔ یوکرائنی سیلرز کی واپسی سے صدر وولودومیر زیلینسکی کے وقار اور مقبولیت میں یقینی اضافہ ہو سکے گا۔ انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ مشرقی یوکرائن کے مسلح تنازعے کو بھی حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طویل مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اس مناسبت سے سب سے پہلے قیدیوں کے تبادلے کی بات تیس اگست کو سامنے آئی تھی لیکن میڈیا پر ڈیل کے طے ہونے کی خبروں کے بعد صدر وولودومیر زیلنسکی کے دفتر سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ابھی ماسکو حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل طے نہیں ہوئی۔
دونوں ممالک کے مابین ڈیل کے تحت یوکرائن سے رہائی پانے والوں میں ایک روسی فلم ساز اولگ سینٹسوف بھی شامل ہیں۔ سینٹسوف کی رہائی کے لیے عالمی سطح پر بھی مہم جاری تھی۔ ان کے علاوہ یوکرائن سے رہائی پانے والوں میں ولادیمیر ٹسیماخ بھی شامل ہے، جسے ملائیشین ہوائی کمپنی کی پرواز ایم ایچ سترہ کو روس نواز یوکرائنی باغیوں کے داغے گئے میزائل سے تباہی کا اہم گواہ قرار دیا جاتا ہے۔
روس سے رہائی پانے والوں میں نیوی سیلرز سمیت کُل پینتیس افراد شامل ہے۔ ان میں مشہور بلاگر پاولو گریبو، فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں یوکرائنی سرکاری نیوز ایجنسی کے نمائندے رومان سُشچینکو اور تاریخ کے پروفیسر اسٹانسلا کلیخ خاص طور پر نمایاں ہیں۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ تیس اگست سے قبل یوکرائنی عدالت نے روسی فلم ساز کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ یوکرائنی دفتر استغاثہ نے روسی فلم ساز پر مشرقی یوکرائنی باغیوں کی حمایت کرنے کے الزام کو واپس لے لیا تھا۔
ع ح، ش ح ⁄ اے ایف پی، روئٹرز
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔