1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور یوکرین کی جنگ مذہب سے کیسے جڑی ہے؟

5 مارچ 2022

روسی فوج چوبیس فروری کو یوکرین میں داخل ہونے کے بعد سے شدید جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یوکرین اور روس کی سیاسی تاریخ گرہوں اور الجھاؤ کا شکار رہی ہے۔

Ukraine Kirche Rohatyn Iwano-Frankiwsk
تصویر: Yurii Rylchuk/Ukrinform/imago images

روسی اور یوکرینی تاریخ میں جہاں سیاسی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں وہاں مذہبی عدم آہنگی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یوکرین کی آرتھوڈوکس مسیحی آبادی روسی آرتھوڈوکس چرچ اور ایک آزاد چرچ کی طلب میں برسوں سے منقسم رہی ہے۔

مغربی دنیا میں مذہب مسلسل پسپا ہوتا ہوا، جائزہ

دونوں ملکوں میں مذہبی قوم پرستی کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق مذہبی وفاداری کو سیاسی وفاداری کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا، کم از کم ایسے وقت پر جب یوکرین اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔

آزاد یوکرینی آرتھوڈکس چرچ کے سربراہ پیٹری آرک ایپیفانی کی تاجپوشی کی تقریب کا ایک منظرتصویر: GENYA SAVILOV/AFP via Getty Images

یوکرینی اور روسی آرتھوڈوکس چرچ مدمقابل

ماہرین کا خیال ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کسی حد تک یوکرین میں فوج کشی کو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے دفاع کے ساتھ بھی نتھی کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے دونوں دھڑوں کے سربراہان شد و مد سے اس فوج کشی کی مخالفت کا سلسلہ اپنے اپنے انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مخالفت کے اس عمل میں یوکرینی کیتھولک عقیدے کے مسیحی بھی اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یوکرینی کیتھولک آبادی صدیوں سے روسی آرتھوڈوکس چرچ کے جبر کا شکار رہی ہے۔

اینگلیکن چرچ کے نئے سربراہ کا اعلان کر دیا گیا

گرجا گھروں میں دعاؤں کا سلسلہ

سن 2018 میں علیحدہ شناخت حاصل کرنے والے اور کییف میں قائم یوکرین کے آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ میٹروپولیٹن ایپیفانی نے اپنی دعا میں ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس وقت اپنے ہمسائے اور بدی کی قوت کے خلاف برسرِپیکار ہے، جس کے لیے وہ فتح کی دعا کرتے ہیں۔

کییف کا سینٹ صوفیا قدیمی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کا مرکز ہےتصویر: Brendan Hoffman/Getty Images

دوسری جانب قدیمی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ ہے، جو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ماتحت ضرور ہے لیکن اپنی خود مختاری بھی رکھتا ہے۔ یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ پیٹری آرک اونوفرائی آف کییف نے اپنی دعا میں کہا، ''اے خدا! غلط فہمیوں کو دور کر، ہمارے ملک کو متحد کر اور محبت سے نواز۔‘‘

اس بیان کے ویب سائٹ پر پوسٹ کیے جانے کے ایک دن بعد ہی یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ نے یہ بیان بھی پوسٹ کیے کہ اس کے ماتحت گرجا گھروں اور عقیدت مندوں کو حملوں کا سامنا ہے۔ ایک حملے کا الزام تو حریف آرتھوڈوکس چرچ پر بھی عائد کیا گیا۔

کیتھولک مشائخ کی نمائندہ مجلس کا آغاز

یوکرین کا مذہبی منظرنامہ

مختلف سروے ظاہر کرتے ہیں کہ بیشتر یوکرینی آبادی آرتھوڈوکس چرچ سے وابستہ ہے اور ایک واضح اقلیت کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہوئے پاپائے روم کی پیروکار ہے۔ اس مسیحی اقلیتی آبادی کے علاوہ قلیل تعداد میں پروٹسٹنٹ کرسچن بھی ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ مختصر تعداد میں یہودی اور مسمان بھی وہاں آباد ہیں۔

کیتھولک اور انگلیکن کلیسا کے مابین مکالمہ

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کی ایک مشترکہ تاریخ ضرور ہے مگر اس میں مذہبی اور سیاسی تقسیم واضح طور ملتی ہے۔ روسی اور یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ میں مخاصمت بھی کوئی نئی نہیں ہے۔

آزاد یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کے سربرہ ایپیفانی کییف میں ایک مذہبی جلوس کی قیادت کرتے ہوئےتصویر: Brendan Hoffman/Getty Images

یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کی آزاد حیثیت

کسی بھی علاقے کے آرتھوڈوکس چرچ کا سربراہ قسطنطنیہ کے ایکیومینیکل پیٹری آرک کے ماتحت ہوتا ہے اور یہ ماتحتی علامتی ہوتی ہے۔ مختلف علاقوں یا ممالک کے آرتھوڈوکس چرچ اپنی خود مختاری کے حامل بھی ہوتے ہیں۔

موجودہ ایکیومینیکل پیٹری آرک بارتھولومیو نے یوکرین کے نئے آرتھوڈوکس چرچ کی آزاد حیثیت کو سن 2018 میں تسلیم کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے سابق یوکرینی صدرر پیٹرو پوروشینکو کا کردار بھی اہم تھا۔ اس سے پہلے یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ پوری طرح روسی آرتھوڈوکس چرچ کے ماتحت ہوتا تھا اور اب بھی ایک بڑی یوکرینی آبادی اس چرچ سے وابستہ ہے۔

موجودہ ایکیومینیکل پیٹری آرک بارتھولومیو نے یوکرین کے نئے آرتھوڈوکس چرچ کی آزاد حیثیت کو سن 2018 میں تسلیم کیا تھاتصویر: Anna Marchenko/Tass/dpa/picture alliance

سابق یوکرینی صدر پیٹرو پوروشینکو کا کہنا تھا کہ ان کے چرچ کی آزادی حقیقت میں اس کلیسا کے مغرب نواز اور یوکرینی نواز ہونے کی حیثیت کو واضح کرتی ہے۔

یروشلم کے قریب ڈیڑھ ہزار سال پرانے بازنطینی کلیسا کی دریافت

روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے تک یوکرینی چرچ کے کئی راہب خانے اور کلیسائی علاقے ماسکو کے پیٹری آرک کے ماتحت تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ جنگ ممکنہ طور پر یوکرین میں روسی آرتھوڈوکس چرچ کی مسلمہ حیثیت ختم کر سکتی ہے۔

ع ح / م م (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں