1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور یوکرین کی جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار

5 مارچ 2022

روس کا یوکرین پر حملہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کا سب سے بڑا جنگی تنازعہ قرار دیا گیا ہے۔ یوکرین کو کئی اطراف سے روسی فوج کے شدید حملوں کا سامنا ہے۔

Russischer Panzer bei Militärübung in der Region Leningrad
تصویر: Russian Defense Ministry/AP Photo/picture alliance

روسی فوج اپنے توپخانے اور ٹینکوں کے ساتھ یوکرینی علاقے کو روند رہی ہیں۔ فضا سے شہروں پر بمباری اور میزائل بھی داغے جا رہے ہیں۔ شہروں اور دوسرے ملٹری مقامات پر توپوں کے گولے داغنے کے ساتھ ساتھ راکٹ بھی پھینکے جا رہے ہیں۔

ان حملوں میں بے شمار یوکرینی شہری اور فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ عام شہری یوکرین سے جانیں بچا کر ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

یوکرین پر روسی فوج کشی: مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے؟

اس جنگ میں روس اور یوکرین کی افواج کا حملوں کے دوران استعمال کیے جانے والے ہتھیاروں پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں:

جنگی جہاز اور میزائل

روسی فوج جنگی طیاروں کی بمباری کے ساتھ ساتھ کیلیبر کروز میزائل کا استعمال بھی جاری رکھے ہوئے ہے اور سارے یوکرین میں بے شمار مقامات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

روسی فوج نے جدید اسکانڈر میزائل بھی یوکرینی جنگ میں استعمال کیے ہیںتصویر: Russian Defense Ministry/AP Photo/picture alliance

یوکرینی شہروں کییف اور خارکیف میں واقع عسکری تنصیبات کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ روسی فوج اسکانڈر میزائل بھی استعمال کر رہی ہے، جس کی رینج پانچ سو کلومیٹر تک ہے۔ بعض اسکانڈر میزائل بیلاروس سے بھی فائر کیے گئے۔

راکٹ اور آرٹلری

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلینسکی اور دوسرے حکومتی اہلکاروں نے روس پر الزام لگایا ہے کہ روسی فوج بلا امتیاز شہری علاقوں پر بھی گولے پھینک رہی ہے۔ ان کے گولوں اور راکٹوں کی زد میں اسکولوں کی عمارتیں اور ہسپتال بھی آئے ہیں۔

دوسرے بڑے یوکرینی شہر خارکیف کے کئی مقامات کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا۔ سوویت دور کے ساختہ گراڈ (ہیل)، سمریخ (ٹورناڈو) اور اراگان (ہاریکین) راکٹ بھی جنگ میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان راکٹوں کے استعمال سے بڑے فوجی ایریا کو تباہ کرنا مقصود تھا۔

روس اور یوکرین کی جنگ مذہب سے کیسے جڑی ہے؟

روسی فوج نے سوویت دور کی طاقتور توپوں کا بھی استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ ان توپوں میں دو سو تین ملی میٹر کی پیئونی اور ایک سو باون ملی میٹر کی ہائیاسینتھ توپیں شامل ہیں۔

یوکرین کے چھوٹے بڑے شہروں پر روسی جنگی طیاروں سے بھی بمباری کی جا رہی ہےتصویر: Shamil Zhumatov/REUTERS

کلسٹر اور تھرموبیرک ہتھیاروں کے استعمال کا الزام

یوکرینی حکام نے روس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے جنگی حملوں کے دوران جہاں کلسٹر بم پھینکے وہاں تھرموبیرک بم کا بھی استعمال کیا ہے۔ ایسے ہتھیاروں کا اکثر استعمال دشمن کے وسیع فوجی علاقے کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔

تھرموبیرک ہتھیاروں میں فیول کنٹینرز کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے پھینکنے سے دو دھماکے ہوتے ہیں۔ ان میں پہلا فیول کو اردگرد پھیلا دیتا ہے اور دوسرا دھماکا فضا کی آکسیجن جذب کرنے کے علاوہ پھیلے فیول میں آگ لگاتا ہے۔

امریکی فوج کے مرکز پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ایسے موبائل لانچر کی نشاندہی اندرون یوکرین ہوئی ہے جہاں تھرموبیرک ہتھیار ہیں۔ ابھی ان کے استعمال کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

یوکرینی شہروں پر روسی حملوں میں مزید تیزی

یوکرینی اسلحہ

یوکرینی فوج کا زیادہ انحصار سوویت دور کے ملٹی پل راکٹ لانچرز پر ہے۔ ان کے علاوہ ہاؤٹیزر توپیں بھی ہیں۔ اس جنگ میں یوکرینی فوج کے زیرِ استعمال سوویت دور کے توخکا شارٹ رینج میزائل بھی ہیں۔ یہ تمام اسلحہ اور ہتھیار سوویت دور کے ہیں اور پرانے ہیں۔

یوکرین کو مغربی ممالک نے حال ہی میں جدید ہتھیار فراہم کیے ہیںتصویر: Ingo Wagner/dpa/picture alliance

یہ اہم ہے کہ یوکرینی فوج کے پاس جدید اسکانڈر اور کیلیبر قسم کے میزائل موجود نہیں ہیں۔ اب یوکرین کو جنگ کے دوران مغربی ممالک نے امریکی ساختہ اسٹنگر میزائل اور کندھے پر رکھ کر چلانے والے ٹینک شکن جیولین میزائل فراہم کیے ہیں۔

یوکرین پر جنگ شروع کرنے کے روسی الزام میں کتنی صداقت ہے؟

یوکرین فوج نے ان کے استعمال کی تصدیق کر دی ہے۔ اس جنگ میں یوکرین نے ترکی کے بنائے ہوئے ڈرونز کا بھی استعمال کیا ہے اور ان کے ذریعے روسی فوجی قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔

 ع ح/ ب ج (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں