1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیوکرین

روس اور یوکرین کے درمیان اناج ایکسپورٹ کا معاہدہ طے پاگیا

23 جولائی 2022

اس معاہدے کے تحت یوکرین اناج کی ایکسپورٹ دوبارہ شروع کرسکے گا۔ روس کی جانب سے مہینوں سے جاری رکاوٹ کے سبب اناج کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا اور دنیا میں خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔

Ukraine-Krieg | Abkommen über Export von ukrainischem Getreide
تصویر: OZAN KOSE/AFP

اقوام متحدہ اور ترکی کی ثالثی میں کییف اور ماسکو نے جمعہ 22 جولائی کو ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد یوکرین کے اناج ایکسپورٹ کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ یہ سمجھوتہ دونوں باہم متحارب ملکوں کے درمیان پہلا بڑا معاہدہ ہے اور اس سے فوڈ سکیورٹی کی بدتر ہوتی حالت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو اور یوکرینی وزیر برائے انفراسٹرکچراولیکساندر کبراکوف نے ترک وزیر دفاع ہلوسی آکار اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ساتھ اس پر دستخط کیے۔

اس موقع پر گوٹریش نے کہا، ''آج بحیرہ اسود کے لیے ایک روشن دن ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہے۔ امکانات کی ایک کرن ہے۔ دنیا کے لیے راحت کی ایک کرن ہے جس کی پہلے کے مقابلے آج کہیں زیادہ ضرورت تھی۔‘‘

اس معاہدے کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

اس منصوبے کی تفصیلات فی الحال جاری نہیں کی گئی ہیں جس پر ترکی اور اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش کئی مہینوں سے کام کر رہے تھے۔

سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت یوکرین کے گوداموں میں جو 22 ملین ٹن کے قریب اناج موجود ہے اسے عالمی منڈی کے لیے فراہم کر دیا جائے گا۔ ترک صدر رجب طیب اردوآن نے کہا، ''آنے والے دنوں میں ہم دنیا کے مختلف ملکوں کے لیے بحیرہ اسود سے ایک نئی راہداری کا افتتاح کریں گے۔‘‘

گوٹیرش کا کہنا تھا کہ اناج کے ایکسپورٹ کا سلسلہ بحیرہ اسود میں تین بندرگاہوں اوڈیسا، چیرنو مورسک اور یوزینی سے دوبارہ شروع ہوجائے گا۔

روسی وزیر دفاع نے کہا، ''ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور روس بندرگاہوں کے کھول دیے جانے کا کوئی فائدہ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو امید ہے کہ اگلے چند ہفتوں کے دوران ہی اناج ایکسپورٹ کرنے کی سطح جنگ سے قبل کی سطح یعنی پانچ ملین ٹن ماہانہ تک پہنچ جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق فریقین اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ یوکرین جانے والے جہازوں کی پہلے تلاشی لی جائے گی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس پر کوئی ہتھیار یا فوجی آلات نہیں ہیں۔ یہ تلاشیاں یوکرین سے اناج لے کر روانہ ہونے والے ان جہازوں کی بھی لی جائیں گی، جو آبنائے باسفورس کے راستے دوسرے سمت میں جارہے ہوں گے۔

تصویر: Turkish Defense Ministry/ITAR-TASS/IMAGO

عالمی رہنماؤں کا ردعمل

اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونی گوٹیرش نے اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے ان ترقی پذیر ملکوں کو راحت ملے گی جو بدحالی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں اور جہاں کے عوام قحط کا شکار ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''اس سے اناج کی عالمی قیمتوں کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی جو جنگ سے پہلے ہی اپنی ریکارڈ اونچی سطح پر پہنچ گئی تھی۔‘‘

یورپی یونین نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا، ''یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے اناج کے حوالے سے عالمی سطح پر بے یقینی پر قابو پانے کی کوششوں میں یہ ایک اہم قدم ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ اسے کتنی تیزی اور ایمانداری سے نافذ کیا جاتا ہے۔

معاہدے کی تقریب میں موجود ترک صدر رجب طیب اردوآن کا کہنا تھا، ''ہم نے یوکرین اور روس کے ساتھ مل کر جو مشترکہ قدم اٹھایا ہے اس سے امن کا راستہ بحال ہونے کی امید ہے۔‘‘

امریکہ نے معاہدے کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ واشنگٹن اس بات پر نگاہ رکھے گا کہ ماسکو معاہدوں کے شرائط پر کس طرح عمل کررہا ہے۔

تصویر: Ozan Kose/AFP

یوکرین کا رد عمل

یوکرینی صدر کے مشیر مائخیلو پوڈولیاک نے جمعے کے روز ایک ٹویٹ کر کے کہا کہ یوکرین روس کے ساتھ براہ راست معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا بلکہ ترکی اور

اقوام متحدہ کے ساتھ ''معاہدے کی نقل‘‘ پر دستخط کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ روسی جہاز اناج سے لدے جہازوں کے ساتھ نہیں چلیں گے اور نہ ہی یوکرینی بندرگاہوں پر روس کی موجود گی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا، ''اگر جہازوں کی کسی طرح کی جانچ کی ضرورت ہوئی تو جانچ کا کام ترکی کے آبی حدود میں مشترکہ گروپوں کے ذریعے کی جائے گی۔‘‘

کییف نے اس بات کی بھی ضمانت طلب کی کہ روس معاہدے کے بعد تیار کی جانے والی جہاز رانی کی محفوظ راہداری کا استعمال اوڈیسا بندرگاہ پر حملے کے لیے نہیں کرے گا۔

ج ا/ا ب ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں