روس کا بھارت اور چین کی جانب جھکاؤ
23 جون 2022روسی صدر ولادیمیر پوٹن مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تناظر میں برکس ممالک سے اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ برکس گروپ کے ایک ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پوٹن نے کہا، ''ہمارے ملک کے تاجروں کو انتہائی سخت حالات میں کاروبار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیونکہ مغربی ممالک آزاد تجارت کے ساتھ ساتھ نجی املاک کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔‘‘ برکس گروپ میں روس کے علاوہ برازیل، چین، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
غیر منطقی پابندیاں
کریملن کے سربراہ نے ''سیاسی حربے کے طور پر مسلسل عائد کی جانے والے ان نئی پابندیوں‘‘ پر تنقید بھی کی۔ انہوں نے کہا، ''یہ پابندیاں انسانی عقل اور اقتصادی منطق سے مطابقت نہیں رکھتیں‘‘۔ پوٹن نے واضح کیا کہ اس وجہ سے روس اپنے اقتصادی روابط اور تجارت کو قابل بھروسہ بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ بڑھانا چاہتا ہے، مطلب یہ کہ سب سے پہلے برکس ممالک کے ساتھ۔ اس طرح روسی تیل کی ترسیل بھارت اور چین کو واضح طور پر بڑھائی جائے گی۔ پوٹن نے مزید کہا کہ روس برکس کے اپنے دوست ممالک کے ساتھ رقم کی منتقلی کا کوئی متبادل نظام بنائے گا تاکہ ڈالر اور یورو پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔
امریکہ کا ٹھوس اقدامات کا اعلان
جرمنی میں ترقی یافتہ ممالک کے ہونے والے اجلاس کے موقع پر امریکہ نے روس پر دباؤ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی حکومت کے ایک نمائندے نے کہا کہ اتوار سے شروع ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے دوران کئی ٹھوس تجاویز پیش کی جائیں گی، ''یہ یوکرین کے لیے مشترکہ حمایت اور تعاون کا اظہار ہو گا۔‘‘جی سیون اجلاس میں ایک ایسی دنیا کے تصور پر بات ہو گی، جس میں زور زبردستی، جارحیت اور اثرو رسوخ کے بجائے آزادی اور کھلے پن کو اہمیت حاصل ہو گی۔‘‘
سفارتی طور پر نامناسب
جرمنی میں یوکرین کے سفارت کار آندرے میلنک جرمن چانسلر اولاف شولس سے اپنے ایک متنازعہ بیان پر ذاتی طور پر معافی مانگنا چاہتے ہیں۔ شولس نے مئی کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ فی الحال یوکرین کا دورہ نہیں کریں گے کیونکہ جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کے یوکرین کے دورے پر کییف کی جانب سے ناپسندیگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ میلنک نے اس موقع پر کہا تھا کہ شولس ایک 'ناراض سوسیج‘ کی طرح کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ میلنک نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا کہ انہیں یہ بیان دینے کے بعد بہت افسوس ہوا اور ان کے بقول یہ بیان سفارتی آداب کے بھی خلاف ہے۔ جرمن چانسلر شولس نے تاہم کچھ تاخیر کے بعد رواں ماہ یعنی جون میں یوکرین کا دورہ کیا تھا۔
ع ا / ک م ( ڈی پی اے، اے ایف پی)