روس: صدارتی انتخابات میں فراڈ کے الزامات
4 مارچ 2012مبصرین کے مطابق روس کے صدارتی انتخابات میں وزیر اعظم ولادمیر پُوتن کی جیت اور ایک مرتبہ پھر منصب صدارت پر براجمان ہونے کے قوی امکانات ہیں تاہم الیکشن مانیٹر کرنے والے افراد کے الزامات کے باعث ان انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
روس کے الیکشن کمیشن نے رائے شماری میں فراڈ یا بے ضابطگیوں کے الزامات کی تردید کی ہے۔ خیال رہے کہ چار دسمبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے دوران بھی بے قاعدگیوں اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
ستائیس ہزار کے قریب افراد نے صدارتی انتخابات میں رائے شماری کے معائنے کے لیے رجسٹریشن کرائی تھی۔ ان معائنہ کاروں کی ویب سائٹ نے اتوار کی دو پہر تک تین ہزار تین سو بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی تھی۔
نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ آج اتوار کی شام میں جا کر ختم ہو گی۔ روس کے انتہائی مشرقی علاقوں میں پولنگ کا آغاز ہفتے کی شام جرمن معیاری وقت کے مطابق نو بجے سے ہو گیا تھا۔ پولنگ کا دورانیہ صبح آٹھ بجے سے شام آٹھ بجے تک ہے۔ پورے ملک میں کل نوے ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔
وزیر اعظم ولادی میر پوتن ایک مرتبہ پھر منصب صدارت سنبھالنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ سن 2000 سے لے کر سن 2008 تک منصب صدارت پر فائز رہ چکے ہیں۔ روسی دستور کے مطابق مسلسل تیسری مدت کے لیے صدر انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ گزشتہ چار سالوں سے وزیر اعظم ہیں۔ الیکشن کے عمل کو پرامن رکھنے کے لیے وزارت داخلہ نے چھ ہزار پولیس کی اضافی نفری مرکزی شہر ماسکو میں طلب کر لی ہے۔
روس کے صدارتی الیکشن میں بظاہر موجودہ وزیر اعظم ولادی میر پوتن کی جیت کو یقینی خیال کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ پہلے مرحلے میں پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوسرے مرحلے کے الیکشن کا انتظام کیا جائے گا۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق روس کے بہت سے افراد کی رائے ہے کہ گو پوتن ان کی اولین ترجیح نہیں ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں پوتن سے زیادہ مضبوط امیدوار کوئی اور نہیں ہے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی