1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس ليبيا تنازعےميں ثالثی ميں مصروف ہے

3 جون 2011

ليبيا کے دارالحکومت طرابلس پر نيٹو کے فضائی حملے گذشتہ رات بھی جاری رہے۔ روس نے کہا ہے کہ وہ اس تنازعے کے حل کے ليے فوجی طاقت کے بجائے بات چيت کو ترجيح ديتا ہے اور اُس نے ثالثی کے ليے اپنا ايک وفد ليبيا روانہ کر ديا ہے۔

نيٹو کے طياروں کی بمباری سے طرابلس ميں لگی آگ
نيٹو کے طياروں کی بمباری سے طرابلس ميں لگی آگتصویر: picture alliance/dpa

جمعرات اور جمعہ کی درميانی شب ليبيا کے دارالحکومت طرابلس پر ايک بارپھر نيٹو کے جنگی طياروں نے شديد بمباری کی۔ عالمی وقت کے مطابق رات ساڑھے گيارہ بجے شہر کے مرکزی حصے سے دور واقع معمر قذافی کا رہائشی علاقہ چار طاقتوردھماکوں سے لرز اٹھا۔ اس کے 15 منٹ بعد مزيد دھماکے ہوئے۔

ليبيا کے حکومتی ترجمان موسٰی ابراہيم نے کہا ہے کہ 19 مارچ سے شروع ہونے والی نيٹو کی فضائی بمباری سے اب تک 718 شہری ہلاک اور 4067 زخمی ہو چکے ہيں۔

واشنگٹن ميں امريکی چئرمين جوائنٹ چيفس آف اسٹاف ايڈمرل مائيک مولن نے کہا ہے کہ پچھلے دنوں ميں يقيناً کچھ ايسی علامات ملی ہيں، جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ قذافی زيادہ سے زيادہ تنہا ہوتے جا رہے ہيں۔ انہوں نے نيٹو کی، اقوام متحدہ کی اجازت سے ليبيا کے شہريوں کی حفاظت کے ليے جاری فوجی کارروائی کی مدت ميں ستمبر کے آخر تک کی توسيع کا خير مقدم کيا۔ اس سے پہلے نيٹو کے سيکرٹری جنرل راسموسن نے صحافيوں سے کہا کہ قذافی کے اقتدار کا خاتمہ اب صرف کچھ ہی عرصے کی بات ہے اور سوال يہ نہيں کہ کيا انہيں جانا ہے بلکہ يہ کہ کب۔

طرابلس ميں قذافی کی حمايت ميں ايک مظاہرہتصویر: dapd

اُدھر اطالوی خبر ايجنسی نے اطلاع دی ہے کہ روسی صدر ميدويديف نے ايک زوسی وفد ثالثی کی کوششوں کے ليے طرابلس اور باغيوں کے مرکز بن غازی روانہ کر ديا ہے۔ روسی صدر نے اٹلی کے وزير اعظم برلسکونی سےمذاکرات کے دوران ليبيا کے تنازعے کے بات چيت کے ذريعے حل کی اہميت پر زور ديا۔ انہوں نے صحافيوں کو بتايا کہ وہ اس مسئلے کو فوجی طاقت کے بجائے مذاکرات سے حل کرنا پسند کرتے ہيں۔

بن غازی ميں باغیتصویر: dapd

روس کے معمر قذافی کی حکومت سے قريبی تعلقات رہے ہيں اور اُس نے مارچ ميں سلامتی کونسل ميں پيش کی جانے والی اُس قرارداد پر اپنا ووٹ محفوظ رکھا تھا، جس ميں ليبيا کے خلاف بين الاقوامی فضائی کارروائی کی منظوری دی گئی تھی۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ليبيا کے ليے مقرر کردہ ايک کميشن کے مطابق ليبيا کی سرکاری فوج نے انسانی حقوق کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ جنگی جرائم بھی کيے ہيں۔ کميشن کے مطابق اُسے باغيوں کی طرف سے بھی جنگی جرائم کے ارتکاب کی اطلاعات ملی ہيں ليکن وہ سرکاری فوج کے مقابلے ميں کم ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں