روسی وفاقی سکیورٹی سروس کا کہنا ہے کہ اس نے گرفتار کیے گئے لوگوں سے گھریلو ساخت کے بم اور آٹومیٹک ہتھیار بھی ضبط کیے ہیں۔ یہ افراد مبینہ طور پر جنگجو گروپ تکفیر والھجرہ کے رکن بتائے جاتے ہیں۔
اشتہار
روسی وفاقی سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) نے بدھ کے روز بتایا کہ اس نے شمالی کوہ قاف علاقے میں حملوں کا منصوبہ بنانے والے 19 مبینہ مسلم شدت پسند جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے۔
ایف ایس بی نے کہا کہ اس نے ان مشتبہ افراد سے ایک خود کش بیلٹ، گھریلو ساخت کے بم اور آٹومیٹک ہتھیار ضبط کیے ہیں۔”یہ لوگ نظریاتی پروپیگنڈا پھیلا رہے تھے اور نئے حامیوں کی تقرری کر رہے تھے، یہ شمالی کوہ قاف علاقے میں سبوتاز کی کارروائی اور دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ تیار کر رہے تھے۔"
یہ کون لوگ ہیں؟
گرفتار شدہ لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق تکفیر والھجرہ نامی ایک مسلم شدت پسند گروپ سے ہے۔ اس تنظیم کا قیام مصر میں ہوا تھا اور اس کے القائدہ سے تعلقات ہیں۔
روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کے مطابق گرفتار شدہ 19 افراد میں سے دس اس تنظیم کے منتظمین سے تھے جب کہ بقیہ سرگرم کارکن ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا دائرہ روستوف، کرسندار اور کراشے۔ چیرکیسیا علاقوں نیز 2014 میں یوکرین سے روس میں ضم کردیے گئے کریمیا تک پھیلا ہوا تھا۔
میڈیا میں نشرہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایف ایس بی کے اہلکار ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کے لیے عمارت پر چڑھ رہے ہیں اور کھڑکی کے ذریعہ کمرے میں داخل ہو رہے ہیں۔
روسی فوجی اسکول، ’مورچوں میں بچپن‘
روس میں قائم فوجی اسکولوں میں بچے ریاضی اور تاریخ کے ساتھ ساتھ جنگی ساز و سامان کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کا مقصد ریاستی سر پرستی میں ایک عسکری اور محب وطن اشرافیہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
روشن مستقبل
آج کے دور میں اگر کوئی روسی شہری اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا خواہاں ہے، تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے ملک میں قائم دو سو سے زائد کیڈٹ اسکولوں میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کریں۔ ان اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عکسری تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کے لیے بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
مادر وطن کے لیے
اسکول میں پریڈ: ماسکو حکومت نے 2001ء میں ایک تربیتی منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد بچوں میں خصوصی طور پر وطن کے لیے محبت بڑھانا تھا۔ فوجی اسکول اور نیم فوجی کیمپس اس منصوبے کا حصہ تھے۔ اگر بچے اپنے کیڈٹ اسکول میں ایک فوجی کی طرح پریڈ کرنا چاہتے ہیں تو حب الوطنی کا جذبہ ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک قدیم روایت
جنوبی روسی علاقے اسٹاروپول کے کیڈٹ اسکول کے بچے ایک پُر وقار تقریب کے ساتھ اپنے تعلیمی سال کا آغاز کرتے ہیں۔ جیرمیلوف جیسے دیگر کیڈٹ اسکولز روس میں ایک قدیم روایت رکھتے ہیں۔ زار اور اسٹالن کے زمانے کے اشرافیہ نے انہی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وجہ سے ان اسکولوں میں داخلے کا نظام بہت سخت ہے۔ صرف ذہین اور جسمانی طور پر فٹ بچوں کے ہی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک جنرل سے منسوب
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول 2002 ء میں بنایا گیا تھا اور یہ جنرل الیکسی پیٹرووچ جیرمیلوف سے منسوب ہے۔ جنرل جیرمیلوف نے انیسویں صدی میں نیپولین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور انہیں روس میں ایک جنگی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
نظم و ضبط
اس اسکول میں تعلیم کا حصول کسی پتھریلے راستے پر چلنے سے کم نہیں۔ اگر یہ بچے ایک کامیاب فوجی بننا چاہتے ہیں تو انہیں لازمی طور پر سخت تربیت کرنا پڑتی ہے۔ ان کیڈٹس کو باکسنگ اور مارشل آرٹ سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فٹنس کے سخت مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
فائرنگ کیسے کی جاتی ہے
سخت جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو ہتھیار بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں اسلحہ بارود کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور فوجی انہیں فائرنگ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
لڑکیاں بھی خوش آمدید
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول میں لڑکیوں کو بھی اعلی فوجی بننے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح خندقیں کھودتی ہیں اور انہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی جنگل میں پھنس جائیں یا گم ہو جائیں تو وہاں سے کس طرح سے نکلا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
چھاتہ برداری
یہاں پر صرف تندرست اور ذہین ہی نہیں بلکہ بچوں کا باہمت ہونا بھی ضروری ہے۔ بہت سے والدین عام زندگی میں اپنے بچوں کو جن چیزوں سے روکتے ہیں ملٹری اسکولوں میں وہ روز مرہ کے معمول کا حصہ ہیں۔ پپراشوٹ جمپنگ اس کی ایک مثال ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
8 تصاویر1 | 8
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے
نومبر 2014 میں بھی ایف ایس بی نے اسی طرح کے الزامات کے تحت اس گروپ کے چودہ مشتبہ اراکین کو گرفتار کیا تھا۔
دہشت گردی کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی ایک ویب سائٹ trackingterrorism.org کے مطابق ”سویلین، میڈیا، مساجد، صحافی، سیاسی رہنما، فوج اور یہودیوں کو نشانہ بنانا، قتل کرنا، مسلح حملے اور بم دھماکے کرنا اس گروپ کے اہداف میں شامل ہیں۔"
ماضی میں مسلم شدت پسند جنگجو گروپ روس کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ سن 2017 میں سینٹ پیٹرس برگ میٹرو ٹنل میں ایک ٹرین پر حملہ بھی اس میں شامل ہے۔ حالیہ برسوں میں شمالی کوہ کاف میں بھی اسی طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں۔
روسی حکام نے مشتبہ مسلم شدت پسند گروپوں کو ختم کرنے کے لیے متعدد کارروائیاں بھی کی ہیں۔ ملک کے جنوب اور مسلم اکثریتی جمہوریہ چیچنیا میں کیے گئے اقدامات ان میں خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
حقوق انسانی کے گروپوں کا الزام ہے کہ چیچنیا کے سربراہ رمضان قدیروف اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے اسلام پسندی کا استعمال کرتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سن 1999میں چیچنیا میں مسلم شدت پسندوں کو کچلنے کے لیے فوجی کارروائی کی تھی لیکن اس سے قدیروف کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)
طاقتور سربراہان کے شاندار محلات
حالیہ دور میں کئی ممالک کے سربراہان نے شاندار اور پرشکوہ محلات تعمیر کروائے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال روس کے صدر ولادمیر پوٹن کا بحیرہ اسود کے ساحل پر تعمیر کیا جانے والا عالیشان محل ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
صدر پوٹن کا محل
اس کا انکشاف روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی نے ایک ویڈیو پوسٹ میں کیا جو وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کو نوے ملین سے زائد دفعہ یو ٹیوب پر دیکھا جا چکا ہے۔ بحیرہ اسود کے کنارے پر تعمیر کیے گئے اس محل کی قیمت ایک ارب یورو سے زیادہ ہے۔ ناوالنی کے مطابق یہ محل مناکو کے شہزادے کے محل سے بھی 40 گنا بڑا ہے۔ روسی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ محل کئی کاروباری حضرات کی مشترکہ ملکیت ہے جن کے نام افشا کرنا ممکن نہیں۔
تصویر: Navalny Life youtube channel/AP Photo/picture alliance
مراکش کا شاہی محل
یہ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کے دس بارہ محلات میں سے ایک محل ہے۔ کرپشن پر کی کتاب ’کنگ آف تھیوز‘ (چوروں کا بادشاہ) کے مطابق ان محلوں کا روزانہ خرچ لگ بھگ بارہ لاکھ یورو ہے۔ یہ محل انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس میں بادشاہ کے بچوں کے لیے ایک الگ اسکول ہے۔
تصویر: Klaus Rose/dpa/picture alliance
اردوآن کا محل
صدر رجب طیب اردوآن نے پندرہ ملین یورو سے یہ ایک مضبوط اور عالیشان محل تعمیر کرایا۔ یہ محل ’ون لیک‘ کے شمال میں بنایا گیا ہے۔ اس کا طرز تعمیر قدیمی قطب آباد محل جیسا ہے۔ یہ محل سلجوک حکمران سلطان علی الدین نے تیرہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ محل کی تعمیر پرعدالتی پابندی تھی جسے ترک صدر نے خارج کرکے اپنے لیے یہ تیسرا پرآسائش محل بنوایا۔
برونائی کے دارالحکومت سری بھگوان میں دنیا کا سب سے بڑا محل واقع ہے۔ اس کی تعمیر سن 1984 میں مکمل ہوئی۔ سلطان حسن البلقیہ کا یہ محل دو لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔ اس میں ایک ہزار آٹھ سو کمرے، ڈھائی سو باتھ روم اور اوپر نیچے جانے کے لیے سترہ لفٹیں ہیں۔ اس محل کی لاگت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
تصویر: Albert Nieboer/RoyalPress/dpa/picture alliance
راشٹر پتی بھون، نئی دہلی
بھارت کے صدر کی رہائش گاہ کی تعمیر سترہ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ سن 1950 سے یہ بھارت کے صدر کی رہائش گاہ یا راشترپتی بھون کہلاتی ہے۔ اس میں تین سو چالیس کمرے اور کئی ہال ہیں۔ اس کے کوریڈورز کی مجموعی لمبائی ڈھائی کلو میٹر بنتی ہے۔ اس سے ملحقہ مغل باغ اتنا بڑا ہے کہ اس میں ایک سو فُٹ بال گراؤنڈز سما سکتے ہیں۔
تصویر: Mayank Makhija/NurPhoto/picture alliance
ابو ظہبی کا الوطن محل
الوطن محل باغات میں گِھرا ہوا ہے اور اپنے سفید گنبدوں کی وجہ سے انتہائی پرشکوہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کل رقبہ تین لاکھ ستر ہزار مربع میٹر ہے۔ سنگ مرمر کی دیواریں اور سونے کے منقش دروازے اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ اس محل میں متحدہ عرب امارات کے حکمران اور ولی عہد کے علاوہ کابینہ کے ارکان کی رہائش گاہیں ہیں۔
تصویر: Erich Meyer/euroluftbild.de/picture alliance
تاجک صدارتی محل
وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کا صدارتی محل ایک قومی نشان اور سفید ہونے کی وجہ سے ’وائٹ ہاؤس‘ کہلاتا ہے۔ اس محل کے گراؤنڈ میں دنیا کی دوسری بلند ترین فائبر گلاس کی چھت ہے، جو کہ ایک سو پینسٹھ میٹر بلند ہے۔