روس میں افغانستان سے متعلق مذاکرات، طالبان بھی مدعو
7 اکتوبر 2021
روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کا کہنا ہے کہ بیس اکتوبر کو افغانستان کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں شمولیت کے لیے افغان طالبان کو بھی ماسکو مدعو کیا جائے گا۔
اشتہار
یہ مذاکرات بارہ اکتوبر کو افغانستان کے حوالے سے ہونے والی جی ٹوئٹی سمٹ کے بعد ہوں گے۔ مذاکرات میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہاں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر قابو پانے کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔
صحافیوں سے گفتگو کے دوران کابلوف سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا روس، افغانستان میں جہاں انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، وہاں امداد بھیجے گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس افغانستان امداد بھیجے گا لیکن امداد کی تفصیلات سے متعلق ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ماسکو طالبان کے ساتھ بات چیت تو کر رہا ہے لیکن ابھی تک اس نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ روس میں افغان طالبان پر بطور تنظیم پابندی عائد ہے۔ تاہم پیر کو کابلوف کا کہنا تھا کہ ماسکو طالبان پر اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں پر نظر ثانی کر سکتا ہے لیکن ،''اس وقت اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں جلدی کی ضرورت نہیں۔''
کریملن حالیہ کچھ عرصے میں کئی مرتبہ طالبان کو مذاکراتی عمل کے لیے روس مدعو کر چکا ہے۔ اس سال جولائی میں بھی طالبان کا ایک وفد ماسکو گیا تھا۔
مغربی ممالک کے برعکس جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے سفارتکاروں کو فوری طور پر افغانستان سے واپس بلا لیا تھا، روس نےکابل میں اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے افغانستان کے داخلی معاملات میں غیر ملکی مداخلت پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ماسکو نے سویت یونین کی جانب سے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش سے کئی سبق سیکھے ہیں۔
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
انیس سو اسی کی دہائی میں ماسکو نے قریب دس سال تک افغانستان میں ایک انتہائی خون ریز جنگ لڑی۔ اس جنگ میں چودہ ہرزا سویت فوجی اور بیس لاکھ افغان ہلاک ہوئے۔ جنگ کے باعث ستر لاکھ افغان شہریوں کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔
پوٹن نے افغانستان میں شدت پسند گروپوں کی جانب سے سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑوسی ممالک میں بطور مہاجر داخل ہونے کے حوالے سے بھی خبرادر کیا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد روس نے تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ ان دونوں ممالک میں روسی فوجی اڈے قائم ہیں۔ ماسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے تازہ صورحال میں وسطی ایشائی ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کے آرڈر موصول ہوئے ہیں۔
طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وسطی ایشائی ممالک کو افغانستان سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا تاہم ان ممالک کو ماضی میں افغانستان کی سرزمین سے شدت پسندوں ان ممالک کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔