روس میں افغانستان کے موضوع پر بین الاقوامی مذاکرات
3 نومبر 2018
روس نو نومبر کو افغانستان کے موضوع پر بین الاقوامی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔ ان مذاکرات میں کابل حکومت کے علاوہ طالبان کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔
اشتہار
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ بین الاقوامی مذاکرات ماسکو میں ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور طالبان نے ان مذاکرات میں اپنے وفود بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ روسی بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ پہلا موقع ہو گا کہ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر سے وابستہ افراد اس سطح کی کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔‘‘
افغان وزارت خارجہ نے تاہم اس روسی حکومتی بیان کی تصدیق نہیں کی۔ افغان وزارت خارجہ کی جانب سے تاہم کہا گیا ہے، ’’ہم روسی حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں، تاہم ابھی تک ہم کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچے۔‘‘
ماسکو کا کہنا ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں امریکا، بھارت، ایران، چین، پاکستان اور وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے، ’’روس ایک مرتبہ پھر اپنا موقف واضح کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان میں امن کا واحد راستہ سیاسی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔‘‘
دوسری جانب سن 2014 میں منصب صدارت سنبھالنے والے اشرف غنی نے اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اشرف غنی نے صدارتی منصب ایک ایسے موقع پر سنبھالا تھا، جب اسی برس امریکا اور دیگر نیٹو فورسز کی بڑی تعداد کا انخلا عمل میں آیا تھا۔ تاہم بعد میں امریکا نے مخدوش حالات کے سبب چند ہزار فوجیوں کو افغانستان ہی میں تعینات رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گو کہ اشرف غنی آئندہ انتخابات میں افغان حکام کے سامنے خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کریں گے، جو افغانستان میں قیام امن کے لیے واحد موزوں شخصیت ہو، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں افغانستان کا ایک بڑا حصہ حکومتی کنٹرول سے باہر جا چکا ہے اور افغان فورسز کو طالبان کے مقابلے میں کئی مقامات پر شکست کا سامنا ہوا ہے۔