روس میں سٹالن برانڈ ریستوراں کھلنے کے اگلے ہی روز بند
10 جنوری 2021
روسی دارالحکومت ماسکو میں سوویت دور کے کیمونسٹ رہنما جوزف سٹالن کے نام سے تشہیر کرنے والا ایک نیا شوارما ریستوراں کھلنے کے ایک ہی دن بعد بند ہو گیا۔ اس ریستوراں کی سٹالن کے نام سے برینڈنگ پر شدید تنقید شروع ہو گئی تھی۔
اشتہار
ماسکو میں یہ نیا کاروبار ایک شوارما ریستوراں بھی تھا اور ایک کیفے بھی لیکن اس کے مالک نے نا صرف اس ریستوراں کے دروازے پر سوویت یونین کے دور کے کمیونسٹ ڈکٹیٹر جوزف سٹالن کی ایک بہت بڑی تصویر لگا دی تھی بلکہ کیفے کے اندر مہمانوں کی خدمت کرنے والا ایک شخص بھی سٹالن دور کے سکیورٹی اہلکاروں جیسی یونیفارم پہنے ہوئے ہوتا تھا۔
'سٹالن ڈونر شاپ‘ کے مالک سٹانسلاو وولٹ مین نے بتایا کہ اس نے اپنا یہ نیا کاروبار صرف ایک روز پہلے ہی باقاعدہ طور پر کھولا تھا اور پہلے ہی دن اس کیفے میں شوارما کھانے کے لیے تقریباﹰ 200 گاہک آئے تھے۔
لیکن ماسکو کے بہت سے شہریوں کو یہ بات پسند نہ آئی کہ اس ڈونر شاپ کے مرکزی دروازے کے اوپر جوزف سٹالن کا ایک بہت بڑا پورٹریٹ نصب کیا گیا تھا اور اس ریستوراں میں کھانوں کی مختلف اقسام اور آرڈرز کے نام بھی سوویت دور کے کمیونسٹ رہنماؤں کے ناموں پر رکھے گئے تھے۔
وولٹ مین کے مطابق اس کے لیے قانونی طور پر ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے یہ ریستوراں بند کرنا پڑتا۔ تاہم ماسکو پولیس نے اس کے ریستوراں میں آ کر یہ پرزور مطالبہ کیا تھا کہ وہ سٹالن کی تمام تصویریں اور پورٹریٹ ہٹا دے۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
سٹانسلاو وولٹ مین نے کہا، ''اس کے بعد مقامی حکام کی طرف سے بھی مجھ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا اور یوں مجھے اپنا یہ نیا کاروبار پوری طرح شروع کرنے کے اگلے ہی روز مستقل طور پر بند کرنا پڑ گیا۔‘‘
'سٹالن شوارما‘ ایک نیا کاروبار ہونے کے باوجود فوراﹰ ہی اس لیے بھی ناکام ہو گیا کہ ماسکو کے بہت سے شہریوں کے علاوہ روس کے دوسرے شہروں کے بہت سے صارفین نے بھی اس کے نام اور اس کی جوزف سٹالن سے نسبت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رویہ اس کے مالک کے 'برے ذوق‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس بارے میں سٹانسلاو وولٹ مین نے کہا، ''میں نے یہ سوچا تھا کہ مجھے اس سٹالن برینڈنگ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شہرت ملے گی۔ اتنی زیادہ تنقید کی تو مجھے کوئی توقع ہی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ مجھے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ میرے ریستوراں کے سامنے تمام ٹی وی اسٹیشنوں کے رپورٹر اور سوشل میڈیا بلاگرز وغیرہ اس طرح قطاروں میں جمع ہو جائیں گے، جیسے وہ سوویت یونین کے بانی رہنما لینن کے مقبرے میں داخل ہونے سے پہلے لمبی لمبی قطاریں بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘
سوویت یونین کا زوال اوراس کے بعد وجود میں آنے والی ریاستیں
11 مارچ 1990 کو لیتھوانیا نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تاہم سویت یونین نے اس جمہوریہ کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس کا نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی 15 ریاستیں الگ ممالک بن گئیں۔
جوزف سٹالن ماضی کی ریاست سویت یونین کے رہنما تھے، جنہوں نے اس ملک پر طویل عرصے تک ایک مرد آہن کی طرح حکومت کی تھی۔ سٹالن کا دور اقتدار عوام کے لیے جبر، ریاستی ظلم، مشقتی کیمپوں اور قحط تک کی تکلیف دہ یادوں سے جڑا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ محتاط اندازوں کے مطابق بھی سٹالن دور میں سوویت یونین میں صرف 1936ء سے لے کر 1938ء تک کے دو ڈھائی برسوں میں ہی تقریباﹰ سات لاکھ شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس عرصے کو مؤرخین 'گریٹ ٹیرر‘ یا 'عظیم دہشت‘ کا نام دیتے ہیں۔
ماضی کی ریاست سوویت یونین میں بہت سے شہری سٹالن کو اس لیے احترام کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے کہ بنیادی طور پر جوزف سٹالن ہی وہ لیڈر تھے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کو شکست دی تھی اور یوں سوویت یونین کی ریاستی بقا کو یقینی بنایا تھا۔
م م / ع س (روئٹرز)
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔