روس میں آج بروز اتوار صدارتی الیکشن کے لیے پولنگ کا عمل جاری ہے۔ اس الیکشن میں ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس مرتبہ ووٹ ڈالنے کی شرح کیا رہتی ہے۔
اشتہار
وفاق روس میں آج اتوار کے دن صدارتی الیکشن کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اقتدار پر مضبوط گرفت کے باعث یہ امر یقینی ہے کہ سابق خفیہ ایجنٹ ولادیمیر پوٹن چوتھی مرتبہ بھی اس منصب پر فائز ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تاہم ناقدین کے مطابق اس انتخابی عمل میں ووٹ ڈالے جانے کی شرح اہم ہو گی کیونکہ اسی سے معلوم ہو گا کہ عوامی سطح پر پوٹن کی مقبولیت کیا ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق پوٹن کو ستر فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک روس میں گیارہ مختلف ٹائم زونز ہیں۔ اس لیے روس کے مشرقی علاقوں میں ووٹنگ کا عمل عالمی وقت کے مطابق ہفتے کی شب آٹھ بجے شروع ہوا۔ اس انتخابی عمل کا اختتام کالینن گراڈ میں اتوار کی شام چھ بجے ہو گا۔ اس الیکشن میں پوٹن کے مقابل سات امیدوار ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنی سیاسی طاقت نہیں رکھتا کہ وہ پوٹن کو سخت مقابلہ دے سکے۔
پوٹن کے اہم اور مرکزی سیاسی حریف الیکسی ناوالنی کو ان صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔ اس لیے اس الیکشن کا نتیجہ پوٹن کے حق میں ہی جائے گا اور گزشتہ اٹھارہ برس سے برسر اقتدار 65 سالہ ولادیمیر پوٹن مزید چھ سال کے لیے صدر کے عہدے پر براجمان ہو جائیں گے۔
اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے بعد پوٹن نے کہا کہ کوئی بھی ایسا نتیجہ جو انہیں ملکی صدر چننے کے لیے سامنے آئے گا، وہ اسے اپنی کامیابی تصور کریں گے۔
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
12 تصاویر1 | 12
دوسری طرف الیکسی ناوالنی نے روسی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اس الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پر عائد کردہ الزامات سیاسی ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہے ہیں۔
پوٹن سن انیس سو ننانوے سے ملکی اقتدار پر براجمان ہیں۔ اس دوران وہ تین مرتبہ صدر اور ایک مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے تھے۔
سن دو ہزار بارہ میں ہوئے اس الیکشن کے بعد ملک بھر میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ مظاہرین کا الزام تھا کہ پوٹن نے اس انتخابی عمل میں دھاندلی کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔
روس میں یہ الیکشن ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ماسکو اور لندن حکومتوں کے مابین کشیدگی نمایاں ہو چکی ہے۔ برطانیہ میں سابق روسی جاسوس سیرگئی اسکریپل اور ان کی بیٹی پر کیمیکل حملے کے نتیجے میں اتحادی ممالک بھی برطانیہ کے ساتھ ہیں۔ اس تناظر میں روس تنہا دکھائی دیتا ہے۔ برطانیہ کی حکومت کہہ چکی ہے کہ صدر پوٹن نے اس حملے کا حکم دیا تھا۔ تاہم کریملن ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔