روس نے برطانیہ سے اس کی ’حماقت‘ پر معافی طلب کر لی
4 اپریل 2018
کریملن نے برطانوی حکومت سے سابق روسی ڈبل ایجنٹ پر کیے جانے والے اعصاب شکن مادے کے حملے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو ملوث کرنے کے معاملے پر معافی طلب کی ہے۔ کریلمن کے مطابق یہ ’حماقت بہت آگے تک پہنچ چکی ہے‘۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان دیمتری پیشکوف نے انقرہ میں کہا، ’’ان کے قیاس کی کسی بھی صورت میں تصدیق نہیں ہو گی کیوں کہ اس ثابت کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ان کے بیان میں پیشکوف کا مزید کہنا تھا کہ اب برطانوی وزیر خارجہ، جو صدر پوٹن کے خلاف الزامات عائد کرتے رہے اور برطانوی وزیر اعظم کو اب اپنے یورپی ساتھیوں کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ روسی صدر کے ترجمان کے مطابق اب برطانیہ کو ’’کسی بھی طور پر روس سے معافی مانگنا ہو گی۔۔۔ یہ ایک طویل کہانی ہو گی۔ یہ حماقت بہت آگے تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن انقرہ میں ہیں جہاں وہ آج منگل چار اپریل کو اپنے دورے کے دوسرے اور آخری روز شام کے معاملے پر ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں روسی صدر رجب طیب ایردوآن کے علاوہ ایرانی صدر حسن روحانی بھی شریک ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ برطانوی سائنسدان سابق روسی جاسوس پر حملے میں استعمال ہونے وا لے زہر کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ برطانیہ کی پورٹن ڈاؤن ڈیفنس لیبارٹری نے منگل تین اپریل کو بتایا کہ یہ تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ یہ اعصاب شکن مادہ کس ملک میں تیار کیا گیا تھا۔
لندن حکومت کہہ چکی ہے کہ سابق جاسوس سکرپل اور ان کی بیٹی پر حملے میں استعمال ہونا والا کیمیائی مادہ روس میں تیار کیا گیا تھا۔ تاہم ماسکو حکام نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ یہ واقعہ روس اور مغربی ممالک کے مابین ایک بڑا سفارتی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
روس کا ’ انتہائی خطر ناک زہر‘
ڈبل ایجنٹ سرگئی سکرپل کو اعصاب کو مفلوج کرنے والا ایک ایسا زہر دیا گیا تھا جس کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہے۔ اس نرو ایجنٹ کا تعلق کیمائی مادے ’نوویچوک‘ سے ہے۔
تصویر: Getty Images/C.J. Ratcliffe
نوویچوک کے معنی ’نئے شخص‘ کے ہیں
روسی زبان میں نوویچوک کے معنی ’نئے شخص‘ کے ہیں حالانکہ اب یہ مادہ نیا نہیں ہے۔ کیمیائی مادوں کی ا یک ایسی قسم سے ہے، جسے انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔ نوویچوک 5 اور نوویچوک 7 دنیا کے خطرناک ترین سمجھے جانے والے کیمیائی ہتھیار ’وی ایکس‘ سے بھی آٹھ گنا زیادہ خطرناک ہیں۔
سویت دور میں کچھ کم خطرناک کیمیائی مادوں کو کیڑے مار ادویات قرار دیتے ہوئے ان کے بارے معلومات عام کی گئی تھیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اس وقت اس تحقیق کو ایک سویلین پروگرام کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/A. Matthews
نوویچوک مادوں کی تیاری
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے برطانیہ کی ’نارتھ رومبیا یونیورسٹی‘ میں زہریلے مادوں پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر میشیل کارلن نے کہا،’’نوویچوک مادوں کو اس لیے تیار کیا گیا تھا تاکہ انسداد کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن سے کسی طرح بچا جا سکے۔‘‘
تصویر: Northumbria University
نوویچوک مادوں پر پابندی
آج کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن میں نوویچوک مادوں پر پابندی عائد ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ نوویچوک کو سکرپل اور ان کی بیٹی کو زہر دینے کے لیے کس طرح استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/I. Pitalev
نوویچوک دیگر نرو ایجنسٹس کی طرح ہی ردعمل ظاہر کرتا ہے
کارلن بتاتی ہیں،’’ نوویچوک دیگر نرو ایجنسٹس کی طرح ہی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ زہر جسم میں جاتے ہی ایک پروٹین چین ری ایکشن برپا کر دیتا ہے جس سے فوری طور جسم کے ٹشوز اور اعضاء متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/C.J. Ratcliffe
بڑا نخطر
کارلن کے مطابق نوویچوک کا فضا میں ہونا محدود وقت تک نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہ نرو ایجنٹ کا استعمال کرنے والے ایک بڑا نخطرہ مول لیتے ہیں، ’’ اگر مختلف مادوں کو مکس کیا جاتا ہے تو اس وقت ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔’‘
تصویر: picture alliance/AP Photo/G. English
6 تصاویر1 | 6
ادھر آج دی ہیگ میں کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم OPCW کا ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس ماسکو کی درخواست پر بلایا گیا ہے اور اس کا مقصد لندن حکومت کی طرف سے سابق روسی ڈبل ایجنٹ سیرگئی اسکرپل اور ان کی بیٹی پر کیے جانے والے اعصاب شکن کیمیائی مادے کے حملے میں روس کو ملوث کرنے کے معاملے کی چھان بین ہے۔
ماسکو کا کہنا ہے کہ اس نے ’آرگنائزیشن فار دی پرہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ کا اجلاس بلانے کی درخواست اس لیے کی ہے کہ تاکہ لندن حکومت کی طرف سے روس کے خلاف لگائے گئے الزامات اور اس حملے کے حوالے سے تحقیقات پر غور کیا جا سکے۔
مشہور رقاصہ اور ’ڈبل ایجنٹ‘ ماتا ہری کون تھیں؟
مشہور ڈچ رقاصہ اور ’جاسوسہ‘ مارگریٹا سیلے کی سزائے موت پر عملدرآمد کو سو برس بیت گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اس فنکارہ کو فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
’آنکھیں بند نہیں کرنا‘
اپنے نیم عریاں رقص کے باعث مشہور ہونے والی فنکارہ ماتا ہری کو اکتالیس برس کی عمر میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اپنے فن اور فیشن کے ذوق کے باعث وہ پاپولر کلچر میں آج بھی زندہ ہیں۔ سو برس قبل پندرہ اکتوبر سن 1917 کو جب انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا گیا تھا تو انہوں نے شوٹنگ سے قبل اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بزنس مین کی بیٹی
مارگریٹا سیلے ایک ڈچ بزنس مین کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں اپنی عمر سے کافی بڑے ایک فوجی افسر سے شادی کی تھی لیکن جلد انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتیں۔ تب سن 1903 میں وہ رشتہ ازداوج کو توڑتے ہوئے (انڈونیشیا سے) فرانس چلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف ستائیس برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Heritage-Image
خالی ہاتھ فرانس میں
جب خوبرو مارگریٹا پیرس پہنچیں تو ان کے ہاتھ بالکل خالی تھے۔ تب انہوں نے ایک کلب میں نیم برہنہ رقص کرنا شروع کیا اور اپنا نام بدل کر ماتا ہری رکھ لیا۔ جلد ہی وہ مشہور ہو گئیں اور یورپ بھر میں ان کا چرچا ہو گیا۔ انیس سو دس کی دہائی میں وہ بطور فنکارہ ایک معروف شخصیت کا روپ دھار چکی تھیں۔
واشنگٹن ٹائمز نے سن دو ہزار سات میں لکھا تھا، ’’اپنے وقت میں وہ میڈونا کی طرح مشہور و معروف تھیں۔‘‘ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے انہوں نے اس وقت کے بڑے بڑے فوجی افسران اور سفارتکاروں سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ تب انہیں مال و زر کی کوئی فکر نہیں رہی تھی۔
تصویر: Getty Images
’دلربا معشوق‘
پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ میں جب ماتا ہری کو جرمن افواج کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرانس میں سزائے موت سنائی گئی تھی تو یورپ بھر میں مقتدر حلقے انہیں جانتے تھے۔ کہا جتا ہے کہ ہالینڈ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں وہ دلربا کے نام سے مشہور تھیں۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv
جسم فروشی پر مجبور
سن انیس سو چودہ میں البتہ ان کی شہرت کچھ مانند پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں وہ پیرس میں ایک کال گرل کے طور پر کام کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کا کام تب وزراء اور دیگر بڑی شخصیات کی جنسی ہوس کو پورا کرنا ہی رہ گیا تھا۔ اب ان کے پاس مال و دولت بھی کم ہو گئی تھی۔ آرام و آسائش سے زندگی گزارنے والی ماتا ہری کے لیے یہ ایک بڑی تکلیف دہ بات تھی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جاسوسی کا آغاز
سن انیس سو سولہ میں ماتا ہری نے رقوم کی خاطر فرانس کی جاسوسی کرنے کی حامی بھری۔ تب ایک جرمن سفارتکار نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فرانسیسی راز جرمن حکومت کو فراہم کریں گی تو ان کے تمام قرضہ جات ادا کر دیے جائیں گے۔ ماتا ہری کے لیے اس مشکل وقت میں اور کیا راستہ ہو سکتا تھا؟
تصویر: picture-alliance/akg-images
’ڈبل ایجنٹ‘
بعد ازاں ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کو پیشکش کر دی کہ وہ ان کے لیے بھی جاسوسی کا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت فرانسیسی حکام کو پہلے سے شبہ ہو چکا تھا کہ یہ خوبرو خاتون جرمنوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی خفیہ اداروں نے انہیں کئی مشن دیے لیکن اس دوران ماتا ہری کی نگرانی جاری رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
شک یقین میں بدل گیا
فرانسیسی خفیہ اداروں کا شک اس وقت یقین میں بدلا، جب ماتا ہری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فیٹل کے مشرقی محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ اس وقت وہاں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ماتا ہری کے مطابق وہ وہاں اپنے ایک روسی فوجی دوست سے ملنے جانا چاہتی تھی۔
جنوری سن انیس سو سترہ میں فرانسیسی حکام کو یقین ہو گیا کہ ماتا ہری جرمن فوج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ جرمن فوج نے ماتا ہری کا نام ایجنٹ H21 رکھا ہوا تھا۔ تب ہری کو ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں پچیس جولائی سن انیس سو سترہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ کو جب سزائے موت پر عملدرآمد کی خاطر ماتا ہری کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا اور شوٹنگ سے پہلے انہوں نے فائرنگ اسکواڈ کی طرف ’فلائینگ کس‘ بھی کیے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پاپولر کلچر
ماتا ہری کی زندگی پر ادب بھی تخلیق کیا گیا اور کئی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ تحقیقات کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ماتا ہری نے ڈبل ایجنٹ کے طور پر جرمن اور فرانسیسی افواج کو کیا کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ اب بھی کئی حلقے ماتا ہری کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔