ماسکو حکومت نے تیئس برطانوی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ لندن حکومت کی طرف سے ’جارحانہ‘ اقدامات کی وجہ سے روس میں برٹش کونسل کی تمام تر سرگرمیوں کو بھی روک دیا گیا ہے۔
اشتہار
سابق روسی ڈبل ایجنٹ اور ان کی بیٹی پر برطانیہ میں ہوئے کیمیکل حملے کے باعث دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اور ’لفظی جنگ‘ میں شدت آتی جا رہی ہے۔ قبل ازیں برطانوی وزیر اعظم ٹيريزا مے نے بھی تیئس روسی سفارتکاروں کو برطانیہ سے بیدخل کیا تھا۔
برطانیہ نے اپنے سفارتی اہلکاروں کو بیدخل کیے جانے کے اس روسی فیصلے کے بعد کہا ہے کہ کہ لندن حکومت کی اب ترجیح روس میں موجود اپنے سفارتی عملے کی حفاظت اور دیکھ بھال یقینی بنانا ہے۔
صدر پوٹن انتخابات جیت جائیں گے، روسی صدارتی امیدوار بورس تیتوف
03:33
جرمنی، امریکا، فرانس اور برطانیہ کے رہنماؤں نے سابق روسی جاسوس سیرگئی اسکریپل اور ان کے بیٹی ژولیا پر ہوئے کیمیکل حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی کے لیے ماسکو کو ذمہ دار قرار دے چکے ہیں۔
ایک سینیئر روسی سفارت الیگزانڈر شلگین کار نے آج سترہ مارچ بروز ہفتہ ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ در اصل ڈبل ایجنٹ پر ’نرو ایجنٹ‘ حملہ مغربی ممالک نے کیا ہے۔ شُلگین کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے (او پی سی ڈبلیو) میں روسی نمائندے بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’’میں ادھر اُدھر کی بات نہیں کروں گا بلکہ ان ممالک کے براہ راست نام لے رہا ہوں۔ (حملے میں ملوث ممالک) خود برطانیہ اور امریکا ہیں۔‘‘
برطانیہ میں روسی شہری کی پراسرار موت
برطانیہ میں پناہ گزین ایک روسی کاروباری شخصیت نکولائی گُلشکوف اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ تفتیشی اداروں کے رپورٹ کے مطابق گلشکوف کی موت گردن دبائے جانے سے ہوئی ہے۔
گلشکوف کسی زمانے میں پوٹن کے قریبی دوست سمجھے جانے والے روسی بزنس مین بورس برزوفسکی کے پارٹنر اور دوست تھے۔ ارب پتی برزورفسکی بھی برطانیہ میں پناہ لیے ہوئے تھے اور وہیں سن 2013 میں ان کی موت بھی پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق گلشکوف کی ہلاکت کے بعد برطانوی پولیس نے ملک میں موجود دیگر روسی پناہ گزینوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ان سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔